View allAll Photos Tagged Islam'
Saw a couple of these stickers around the place on my way to work this morning nice to see a bit of non-extremism around the place.
“Hohhot Mosque (Great Mosque)”
Islamic calligraphy
Islamic calligraphy, or Arabic calligraphy, is the artistic practice of handwriting and calligraphy, based upon the Arabic language and alphabet in the lands sharing a common Islamic cultural heritage. It is derived from the Persian calligraphy. It is known in Arabic as khatt , which derived from the word 'line', 'design', or 'construction'
en.wikipedia.org/wiki/Islamic_calligraphy
It is the oldest mosque of the city and at the beginning of hui minority district.
www.tripadvisor.com/Attraction_Review-g297440-d498837-Rev...
The Grand Mosque:
The Grand Mosque, located at the northern gate of the old downtown area of Hohhot, established in the Qianlong Period of the Qing Dynasty, is the biggest mosque in the city of Hohhot.
A wooden screen in the Mausoleum of Rukn-i-'Alam, Multan; an illustration in Islamic Architecture of Pakistan by Ahmad Nabi Khan
Enamelled and gilded glass beaker, Turkey 1914-1916 AD.
This vessel was commissioned by an Ottoman patrician, it bears the mark of the Lobmeyr glassworks in Austria.
Few pictures from my recent trip to Iran, Pakistan, Afghanistan and Turkey. You can find more (with captions!) at www.expedice.org/luke/silkroad
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 29 جنوری 2016 بیت الفتوح یوکے( طالب دعا : یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ اور آیت کریمہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مخفی ہے مگر وہ اپنی قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے دعا کے ذریعہ اس کی ہستی کا پتا چلتا ہے ۔جب بادشاہ یا شہنشاہ پر ایسے حوادث آتے ہیں کہ وہ بھی عاجز ہو جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ کیا کرنا چاہیے ۔اس وقت دعا کے ذریعہ سے مشکلات حل ہو سکتے ہیں۔آپ ؑ نے بے شمار جگہ اس کی اہمیت بیان فرمائی ۔ اور پھر آپ ؑ کے صحابہ نے اس کا ادراک بہت پختہ تھا اور دعا پر ایسا یقین تھا اور ایمان تھا کہ غیروں پر بھی ان کا رعب تھا اور غیر مذہب والے بھی جو احمدیوں سے تعلق رکھتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ان کی دعائیں بڑی قبول ہوتی ہیں: حضرت مصلح موعود نور اللہ نے فرمایا : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک واقعہ سنایا گیا جو منشی اڑوھے خان صاحب کا تھا ۔وہ بہت کثرت سے آتے تھے ۔حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں جب ہم چھوٹے تھے ان کا آنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی مدت بعد کوئی اپنے عزیز سے ملے ۔باوجود اس کے جلدی جلدی آتے تھے مگر محبت و خلوص سے ملتے تھے کہ جیسے سالوں بعد ملتے ہیں ۔منشی صاحب ایسے آدمی ہیں کہ جو مجسٹریٹ کو ڈرا دیتے ہیں ایک دفعہ اس سے چھٹی قادیان جانے کے لئے مانگی اس نے انکار کر دیا ۔تب آپ ؓ نے کہا قادیان ضرور جانا مجھے چھٹی دے دیں جج نے کہا کام بہت ہے ۔منشی صاحب نے کہا کام کروا لیں میں آج سے بد دعا میں لگ جاتا ہوں ۔آپ نہیں جانے دیتے تو نہ جانے دیں آخر مجسٹریٹ کو کوئی ایسا نقصان پہنچا کہ وہ سخت ڈر گیا ۔پھر بعد میں ہمیشہ ہفتہ کے دن عدالت والوں کو کہتا آج کام جلدی بند کر دو کہیں منشی صاحب کی ٹرین کا وقت نہ نکل جائے ۔اس طرح وہ مجسٹریٹ چھٹی خود ہی دے دیتا تھا ۔یہ بزرگ تھے جن کا غیروں پر بھی دعا کا رعب تھا آج بھی اسی کی ضرورت ہے ۔ دنیا میں مختلف طبیعت کے لوگ ہوتے ہیں بعض حس کے تیز بعض کم ۔ بعض حالات کے عادی ہو جاتے ہیں ۔بعض کے لئے وہ حالات سخت ہوتے ہیں ۔وغیرہ ۔پس سردی گرمی خوشبو و بدبو کا احساس حسوں کی کمی یا زیادتی سے ہوتا ہے ۔یہ انسان کی حسیں ہیں جو اس فرق کو ظاہر کرتی ہیں ۔انسانوں کی اکثریت اس لحاظ سے حساس ہوتی ہیں ۔اور جن کو احساس نہیں ہوتا وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ یہ کوئی چیز ہی نہیں ہیں ۔بعض سردیوں میں بھی لوگوں نے جرابیں پہنی ہوتی ہیں ۔بعض لوگ بغیر جراب کے بھی پاؤں گرم ہونے کا کہتے ہیں ۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سردی نہیں ۔پس ان چیزوں کے اثرات ہوتے ہیں ۔بہرحال حضرت مصلح موعود نور اللہ نے اس احساس کے فرق کی ایک مثال دی ۔آپ ؓ نے فرمایا حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کسی شہر میں چند شہری نے کہا تل بہت گرم ہوتے ہیں ۔ایک پاؤ تل کھا کر بیمار ہو جائے گا ۔اس کے دوران ایک نے کہا اگر کوئی اتنے تل کھائے تو میں پانچ روپے انعام دونگا ۔زمیندار گزر رہا تھا ۔ان کو عادت ہوتی ہے ۔کوئی اکھڑ قسم کا ذمہ دار تھا ۔وہ حیرت سے باتیں سنتا رہا اور خیال کر رہا تھا کہ ایسے مزے کی چیز کھانے پر پانچ روپیہ کے انعام بھی ملیں گے ۔اس نے پوچھا کہ ٹہنیوں سمیٹ کھانے ہیں کہ بغیر ۔یہ اس لئے پوچھا کہ بغیر ٹہنیوں کے کھانے کے اتنا انعام کس طرح ہو سکتا ہے ۔جب کہ وہ بغیر نہٹیوں کے کھانے کو ناممکن خیال کرتے ہیں اور ایک دوسرا ٹہنیوں کے سمیٹ کھانے کو تیار ہے ۔یہ فرق ہے ۔دونوں کو احساس میں ۔پس دنیا میں جس قدر فرق ہیں وہ احساسات کے فرق ہیں ۔یہی روحانی دنیا میں بھی چلتا ہے قانون ۔کسی پر نماز کا اثر زیادہ ہوتا ہے ۔کسی پر کم ۔بعض ظاہرا نمازیں پڑھتے ہیں مگر اثر نہیں ہوتا ہے ۔روحانی حسوں کے ثبوت کے لئے انہی کی شہادت قبول ہوگی جن میں یہ حس زیادہ ہوگی جن پر اثر زیادہ ہوگا،پس جماعت میں ایسے افراد کی اکثریت ہو جن کی حسیں روحانی اثرات کو زیادہ قبول کریں پھر حقیقی نماز و عبادت کا دنیا کو بھی ادراک دیں ۔اور کس طرح اس کو حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ حضرت مصلح موعود نور اللہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو خلیفہ اول ؓ بیان کیا کرتے تھے ۔آپ نے ایک اور حوالہ سے بیان کیا ہے ۔مگر اس سے پتا چلتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ کے پاس بڑے بڑے عالم بھی آتے تھے تو یہ عالم آپ کی بیعت کا شرف بھی حاصل کرتے تھے ۔حضرت خلیفہ اول ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ایک عالم دین جس کا سارے ہندوستان میں علمیت کا شہرہ تھا ۔بہت سادہ تھے ۔جو نہ جانتے وہ عام مزدور سمجھتے ان کا نام مولوی خان ملک تھا ۔وہ کہیں سے خبر سن کر قادیان آئے اور باتوں کو سن کر ایمان لے ائے واپسی پر لاہور مولوی غلام احمد صاحب سے ملنے کا ارادہ کیا وہ شاہی مسجد میں درس دیتے تھے اور شاگرد تھے ۔مولوی غلام احمد صاحب کی مالی حالت بہت اچھی تھی اور بہت طالبعلم تھے ۔جب مولوی خان محمد مسجد میں آئے تو طلباء کو علم نہ تھا کون ہیں ۔انہوں نے اندازہ لگایا کہ کوئی معمولی آدمی ہیں جب مولوی غلام احمد صاحب نے پوچھا کہاں سے آئے کہا قادیان سے اور کہا قادیان سے بیعت کر کے ۔مرزا صاحب کا مرید ہونے کے لئے گیا تھا ۔غلام احمد نے پوچھا کیا خوبی دیکھی جو مرید ہونے چلے گئے ۔مولوی غلام احمد کو خان محمد نے کہا تو اپنا کم کر تنیوں تے قال یقول نہیں آتا ۔ طلباء نے جب یہ سنا تو مولوی خان محمد سے مخاطب ہو کر کہا تو نے یہ کیا بات کہی ہے ۔مولوی غلام احمد نے منع کیا اور کہا کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے ۔ اسی طرح ایک واقعہ حضرت مصلح موعود نور اللہ بیان کرتے ہیں حضور ؑ کے زمانہ میں ایک عرب آیا اور کچھ دن کے بعد جانے لگا تو کرایہ کے طور پر جب کچھ دیا تو لینے سے انکار کر دیا ۔میں نے سنا تھا آپ نے مامور ہونے کا دعوی کیا ہے ۔اس لئے آیا تھا ۔اس بات کو دیکھ کر آپ ؑ نے فرمایا کچھ دن اور ٹھہر جائیں ۔بعض کو مقرر کیا تبلیغ کریں مگر اس کو اثر نہ ہوا ۔اخر ان دوستو نے عرض کیا بہت جوشیلا ہے ۔اس کو صداقت کی طلب معلوم ہوتی ہے ۔جس طرح آج کل کے عرب میں بھی طلب ہے ۔آپ دعا کریں ۔جب آپ ؑ نے دعا کی تو بتایا گیا کہ ہدایت ہو جائے گی اسی رات کچھ ایسا ہوا اور بیعت کر لی ۔حج کے موقع پر کئی کو تبلیغ کی اور مار مار کر بیہوش کر دیا ۔بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب سینے کھولے تو کھلتے ہیں ۔اسی طرح ایک اور واقعہ ہے ۔حضور ؑ کے زمانہ میں ایک امریکن نے الیگزنڈر ریسل اس کا نام تھا ۔اس نے اسلام قبول کیا ۔جب اس نے یہ فولڈر کی اشاعت کی تو اس نے حضور ؑ سے خط و کتابت کی اور مسلمان ہوگیا اور اسلام کی اشاعت کے لئے زندگی وقف کر دی ۔بعد میں ہندوستان آیا اور حضورؑ سے ملنے کی خواہش کی تو مولویوں نے کہا اگر مرزا صاحب سے ملے تو مسلمان تمہیں چندہ نہیں دینگے ۔چنانچہ وہ بہکانے کے نتیجہ میں حضور ؑ سے نہ ملا ۔آخر بہت مایوسی سے واپس گیا ۔حضور ؑ کی وفات کے قریب اس نے خط لکھا کہ میں نے نصیحت کو نہ مان کر بہت دکھ اٹھایا ہے ۔آپ نے ٹھیک کہا تھا کہ مسلمانوں کے اندر خدمت دین کا کوئی شوق نہیں ۔میں نے نہ مانا اور آپ کی ملاقات سے محروم ہوگیا ۔تو سب سے پہلا مسلمان امریکہ میں وہی ہوا تھا۔حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں اب بھی دیکھتا ہوں جماعت کی ترقی امریکہ میں زیادہ ہے ۔یورپ میں بھی ہو رہی ہے ۔مگر امریکہ میں زیادہ ہے ۔اللہ تعالیٰ کرے کہ امریکہ کی جماعت ایسے سعید فطرت لوگوں کی تلاش کرے اور ان کو اس جھنڈا تلے لے جائیں ۔ویسے بھی ایک زمانہ میں بہت احمدی ہوئے تھے ۔اور مضبوطی سے قائم رہے ۔بہت سے ایسے ہیں جن کی نسلیں احمدیت پر قائم نہ رہ سکیں ۔دنیا داری کی وجہ سے یا کوئی وجہ تھی ۔اس کے لئے بھی کوشش کرنی چاہیے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کے ساتھ کیا سلوک تھا ۔حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں جب بچہ چھوٹا ہو کہانیوں کے ذریعہ تربیت کریں ۔کھیل کود میں تربیت ہو ۔کبھی حضرت یوسف ؑ کا قصہ کبھی حضرت نوح ؑ کا قصہ ۔اسی طرح کئی ضرب الامثال جو کہانیوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ ہم نے آپ سے سنی ہیں ۔مفید اخلاق سیکھانے والی کہانیاں بھی ہیں ۔جب بچہ کی عمر بہت چھوٹی ہو ان کو اس طریق پر تعلیم دی جاتی ہے ۔کھیلیں ہیں ۔بعض کہتے ہیں یہ کھیلتا بہت ہے ۔اگر وہ باہر جا کر کھیلتا ہے تو کھیلنے دینا چاہیے ۔کہانیوں کا زمانہ کھیل سے پہلے کا زمانہ ہے ۔پس باپوں کو بھی بچوں کو وقت دینا چاہیے ۔ان سے دوستانہ تعلق رکھیں ان کو اپنے ساتھ جوڑیں تو بہت سے تربیت کے مسائل حل ہو جائیں گے جن کی شکایت ہوتی ہے ۔پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں ۔جو کہانی سنائی جاتی ہے اس کا مقصد بچہ شور نہ کرے اور وقت ضائع نہ کرے اگر وہ کہانی ایسی ہو جو آئندہ زندگی میں بھی فائدہ دیں ۔آج کل بچوں کے شور سے بچنے کے لئے آئی پیڈ دے دیتے ہیں یا ٹی وی پر بیٹھا دیتے ہیں ۔چھوٹے بچوں کو نہیں بیٹھانا چاہیے ۔دوسرے دو سال سے کم بچے کو ویسے بھی کہتے ہیں سوچ پر فرق پڑ جاتا ہے بہرحال حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں جو کہانیاں حضرت مسیح موعود ؑ سنایا کرتے تھے اس سے فائدہ ہوتا تھا ۔اسی وجہ سے آپ ؑ ہم کو رات کو کہانیاں سنایا کرتے تھے ۔بچہ کو کیا پتا ہوتا ہے کہ اس کے والد کتنا بڑا کام کر رہے ہیں ۔اگر اس کو دلچسپی کا سامان نہ دیا جائے وہ شور کرتے ہیں ۔آپ ؓ نے فرمایا کہانیوں کی ضرورت سب نے تسلیم کی ہے ۔اگر کہانی لغو سنائی جائے تو بچہ خاموش تو ہو جائے گا مگر فائدہ مند کہانی سنانی چاہیے ۔اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ دوستیاں ایسی ہوں جو بربادی کا موجب نہ ہوں ۔حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک واقعہ بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود ؑ فرمایا کرتے تھے ۔ایک شخص کا کسی سے دوستانہ تھا اس کا کوئی احسان تھا ۔وہ بیٹھا کرتا تھا ۔گو حکایت ہے جو حقیقت بیان کرنے کی غرض سے بنائی گئی ہے ۔ایک نصیحت کرنے کی غرض سے ایک قصہ ہے ۔اس وجہ سے کہ دشمن اعتراض نہ کرے ۔ان سے مراد ایسے خصائل رکھنے والے انسان ہوتے ہیں ۔پرانی حکایتوں کو شیر کا دربار اور وزراء کو جانوروں کی صورت میں بیان کیا جاتا تھا ۔ریچھ اس کا دوست تھا ایک دن والدہ بیمار تھی اور پاس بیٹھا پنکھا ہلا رہا تھا اور مکھیاں اڑا رہا تھا ۔ریچھ کو اشارہ کیا کہ تم مکھیاں اڑاؤ ۔اس نے مکھی اڑائے پھر آ بیٹھے ۔اس نے بڑا سا پتھر اٹھایا اور مکھی کو مار دیا اور ماں بھی ماری گئی ۔یہ ایک مثال ہے ۔بعض نادان دوستی کرتے ہیں مگر ڈنگ نہیں جانتے ۔مگر ہوتی تباہی ہے ۔اگر دوست کے سچے خیر خواہ ہوتے تو اس کو اچھائی کی طرف لے جاتے ۔رسول کریم ﷺ نے دوستی کا نقشہ کیا خوب کھینچا ۔بھائی کی مدد کرو ظالم ہو یا مظلوم ۔ظالم کی مدد سے مراد اس کو ظلم کو روکے تو اس کی مدد ہی ہے ۔اپنے دوست کی ہر حال میں مدد کرو اور اس کی مرضی کے مطابق چلو ۔اصل دوستی یہ ہے کہ دوست کے فائدہ کے لئے اس کے خلاف بھی چلنا پڑے تو چلو ۔ کسی شخص کا کسی سے جھگڑا ہوا ۔اس کے دوست نے بغیر سوچے سمجھے دوستی کے حق ادا کرنے یا دھوکے میں جھگڑا میں خوب حصہ لیا ۔پہلا شخص تو اپنی جگہ پر آگیا مگر یہ دوست جس نے اس کی خاطر حصہ لیا تھا وہ مرتد ہوگیا ۔پس دوستیاں جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہیں بعض دفعہ تباہی و بربادی کرتی ہیں ہمیشہ دوستیوں کا حق ادا کرنے کے لئے بھی جذبات کو کنٹرول کرنا چاہیے ۔ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں ۔حضور ؑ سنایا کرتے تھے کہ ایک کا ریچھ سے دوستانہ تھا اور بیوی نے اس کو برا بھلا کہا ۔ریچھ نے تلوار لی اور دوست سے کہا اس کو میرے سر پر مارو ۔اس کو زخم آیا اور وہ جنگل میں چلا گیا ایک سال بعد واپس آیا اور کہا تیری بیوی کا زخم جو زبان سے دیا تھا وہ ابھی بھی تازہ ہے ۔مگر تلوار کا زخم ٹھیک ہے ۔یعنی بیوی جو باتیں کرتی تھی وہ زخم آج بھی ہرا ہے ۔بعض دفعہ زبان کا زخم بہت شدید ہوتا ہے ۔یہ تلوار ایسا زخم لگاتی ہے ۔کہ جو بھولتا نہیں ۔پس امن کے لئے ایک دوسرے کا بھی خیال رکھیں اور بلا وجہ ایسی زبانوں کے تیر نہ چلائیں ۔حضرت مسیح موعود ؑ کے ماننے کے بعد اپنے ایمان کی حفاظت ہر احمدی کا فرض ہے ۔بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی ایمان کو ضائع کر دیتی ہیں ۔ فرمایا : حضرت موسی ؑ کے قصہ میں بات موجود ہے جب مصر سے نکلے تو ان کا مقابلہ عمالیق سے ہوگیا ۔ان کے بادشاہ کو خطرہ ہوا کہ شکست کھا جائیں گے ۔بزرگ سے دعا کی اور الہام ہوا کہ موسی خدا کا نبی ہے اس کے خلاف دعا نہیں ہو سکتی ۔جب بادشاہ کو پتہ چلا کہ میری کوئی چال نہیں چلے گی اس نے چال شیطان والی چلی ۔اس نے بہت سے زیورات تیار کروا کر بیوی کو دئے اور پھر بزرگ نے جواب دیا موسی خدا کا مقرب ہے اس کے خلاف بد دعا نہیں ہو سکتی ۔پھر بزرگ نے کہا یہاں سینا نہیں کھلتا ۔اس نے بد دعا کی ۔کہتے ہیں جونہی اس نے بد دعا کی موسی کی قوم تباہی پڑ گئی ۔اور ادھر جو بزرگ جو بنا ہوا تھا اس کا ایمان بھی ختم ہو گیا ۔اللہ تعالیٰ نے منع کرنے کے بعد بھی دعا کی پھر اس کو یہ سزا ملی اس کی بزرگی کا مقام ختم ہوگیا ۔حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں بیشک قصہ ہے مطلب یہ ہے کہ ایمان بھی دل سے نکل جاتا ہے ۔پس چونکہ ایمان محنت سے آتا ہے اور جاتا ایک فقرہ میں ہے ۔ ذکر الہی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور ؓ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ فقرہ سنایا کرتے تھے دست در کار دل بایار ۔کسی بزرگ سے کسی نے پوچھا اللہ کا ذکر کتنی دفعہ کروں ۔اس نے کہا محبوب کا نام اور گن گن کر ۔مگر معین وقت کر لینا یہ ہے کہ اپنے محبوب کے لئے تمام کام چھوڑ کر الگ ہو جانا ۔معین رنگ میں بھی ذکر الہی کرنا چاہیے ۔غیر معین طور پر بھی اللہ کو یاد کیا جائے اور اس کے فضلوں کو بھی یاد کیا جائے ۔دین کی باتوں کو غور سے سننا اور یاد رکھنے کی کوشش کرنا پھر عمل کرنا بھی ایک احمدی کا مطمع نظر ہونا چاہیے ۔ عو حضرت مصلح موعود نور اللہ عورتوں کو درس دیا کرتے تھے تو ایک بار امتحان لینا شروع کیا تو کسی سے پوچھا کہ کیا پڑھایا ہے تو اس نے کہا یہی کہ اللہ اور رسول کی باتیں ۔اس سے آپ کو صدمہ ہوا ۔اور لیکچر کا سلسلہ بند کر دیا ۔حضرت مصلح موعود ؓ نے کہا مردوں کا بھی یہی حال ہے ۔اس کے مقابلہ پر صحابہ ؓ کو دیکھو کس طرح رات اور دن رسول کریم ﷺ کی باتوں کو سنتے اور عمل کرتے انہوں نے چھوٹی سے چھوٹی بات کو لیا اور عمل کیا ۔اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب میں سے فائدہ اٹھاؤ اور عمل کرنے کے لئے بھی پڑھو مگر لذت حاصل کرنے کے لئے ہی یہ کام نہ کرو ۔جب تم قرآن پر غور کرو گے تو جب اس کی محبت میں ایک بار سبحان اللہ کہنا بھی بہت اونچا لے جاتا ہے ۔ایک مجلس میں فرمایا کہ تسبیح کرتے ہیں تو ایک بار کہنے سے بھی کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں ۔جب مجھے آ کر اس نے کہا تو میں نے کہا ایسا ہوتا ہے ۔دل سے نکلی سبحان اللہ بہت مقام رکھتی ہے ۔رسو ل کریم ﷺ نے فرمایا دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن بہت بھاری ثابت ہونگے ۔سبحان اللہ وبحمد ہ سبحان اللہ العظیم ۔یہ کلمات میں کثرت سے پڑھتا ہوں ۔بعض دفعہ ایک مرتبہ کہنے سے ہی روح کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے احکامات پر غور کریں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔یہی حقیقت ہے دل سے تسبیح و تحمید ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ اثر دکھا رہی ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ جہاں ہمارے اندرونی ،اندر قوت عملیہ پیدا کرے اور رضائے باری تعالیٰ حاصل کرنے والا بنائے وہاں ایسی تسبیح و تحمید کرنے والے ہوں جو ہماری روح کو بلندیوں پر لے جائے اور ہمیں خداتعالیٰ کا قرب مل جائے ۔ (آمین ) on.fb.me/20b3QrD
His Holiness the Dalai Lama greeting young students on his arrival at the Model Public School in Zanskar, J&K, India on June 25, 2014
Zanskar region has witnessed tension between the Muslim and Buddhist communities since 2012 after 22 ‘low caste’ Buddhist members converted to Islam in Padam area of the region, angering Lamas.
My dear sisters in Islam,
Prove yourself wrong and be amongst the righteous women of Islaam.
Dedicate yourself to obey the commands of your Lord, and His Messenger (sallahuàlayhi wa sallam) and realize that there is NO pleasure in other than which pleases your Creator.
O Muslimah! Fear Your Lord!
Give charity and repent before its too Late!
Wear ur hijab – preserve your modesty – say NO to envy and backbiting!
Be a practicing and exemplary muslimah for u are the PEARL OF ISLAM!!
May Allah bless u all..
Ameen
King
slave of Allah!
www.hilaltv.org/izle.php?id=114
Her geçen gün israi'in yaptığı alçak saldırıda sayısı artan şehit kardeşlerimizin Ruhuna, Sağ kalıp yaralanan gazi ve orada zulüm altında olan kardeşlerimize hep birlikte dua edelim inşallah...
Allahım
Efendimiz Muhammed'e ve bütün âl ve ashabına, kâinatın zerrâtı adedince salât ve selâm et. Âlemlerin Rabbi olan Allah'a hamd olsun.
Ey Ehad ve Vâhid ve Samed olan,
Ey Ondan başka hiçbir ilâhbulunmayan,
Ey bir olan ve hiçbir şeriki bulunmayan,
Ey bütün mülk O'nun olan ve bütün hamd O'na mahsus olan,
Ey hayatı veren ve ölümü veren,
Ey bütün hayır elinde bulunan,
Ey herşeye hakkıyla kadir olan,
Ey bütün mahlûkatın dönüşü Ona olan Allahım Bu kelimelerin hakkı için...
Biz Filistin’li, din kardeşlerimizden bihaber Müslümanlar olarak, kendimizi sana şikayet ediyoruz. Halimizi sana arz ediyoruz Rabbim...
Filistindeki Gazze'deki Kardeşlerimize Yardım eyle, Onları Muhafaza Eyle,
Allahım
Ehadiyetinin sırrı hürmetine Filistine Yardım eyle,
Ey kavmi içinde Nuh'un duasına icabet eden, ey düşmanlarına karşı İbrahim'e yardım eden, ey Yusuf'u tekrar Yakub'a kavuşturan, ey Eyyüb'den zararı kaldıran, ey Zekeriya'nın duasına cevap veren, ey Yunus ibni Mettâ'nın tevbesini kabul eden Allahım!
Bu müstecap duaların sahiplerinin hürmetine Filistindeki Müslüman Kardeşlerimizi, İsrail canilerinin şerlerinden muhafaza etmeni,Senden istiyoruz ve Yalvarıyoruz. Allah’ım, Kur’ân hakkı için,
Yâ Rab! Habib-i Ekrem Aleyhissalâtü Vesselâm hürmetine ve İsm-i Âzam hakkına,duâlarımızı kabul buyur...
Âmin, âmin, âmin.
Kuran-ı kerim'de israiloğulları ile ilgili ayetlerden bir kaç tanesi;
BAKARA SÛRESİ (83)
Hani biz İsrailoğulları'ndan "Allah'tan başkasına ibadet etmeyeceksiniz anne babaya yakınlara yetimlere yoksullara iyilik edeceksiniz herkese güzel sözler söyleyeceksiniz namazı kılacaksınız zekatı vereceksiniz" diye söz almıştık. Sonra pek azınız hariç yüz çevirerek sözünüzden döndünüz.
MÂİDE SÛRESİ (12)
Andolsun Allah İsrailoğullarından sağlam söz almıştı. Onlardan on iki temsilci -başkan- seçmiştik. Allah şöyle demişti: "Sizinle beraberim. Andolsun eğer namazı kılar zekatı verir ve elçilerime inanır onları desteklerseniz (fakirlere gönülden yardımda bulunarak) Allah'a güzel bir borç verirseniz elbette sizin kötülüklerinizi örterim ve andolsun sizi içinden ırmaklar akan cennetlere koyarım. Ama bundan sonra sizden kim inkar ederse mutlaka o dümdüz yoldan sapmıştır."
İSRÂ SÛRESİ (4)
Biz Kitap'ta (Tevrat'ta) İsrailoğullarına "Yeryüzünde muhakkak iki defa bozgunculuk yapacaksınız ve büyük bir kibre kapılarak böbürleneceksiniz" diye hükmettik.
Islamic calligraphy at the ceiling of one of the rooms in the Topkapi Sarayi Palace, Istanbul, Turkey
“Hohhot Mosque (Great Mosque)”
Islamic calligraphy
Islamic calligraphy, or Arabic calligraphy, is the artistic practice of handwriting and calligraphy, based upon the Arabic language and alphabet in the lands sharing a common Islamic cultural heritage. It is derived from the Persian calligraphy. It is known in Arabic as khatt , which derived from the word 'line', 'design', or 'construction'
en.wikipedia.org/wiki/Islamic_calligraphy
It is the oldest mosque of the city and at the beginning of hui minority district.
www.tripadvisor.com/Attraction_Review-g297440-d498837-Rev...
The Grand Mosque:
The Grand Mosque, located at the northern gate of the old downtown area of Hohhot, established in the Qianlong Period of the Qing Dynasty, is the biggest mosque in the city of Hohhot.
HOME
BLOG
VIDEOS
ABOUT US
ISLAM LINKS
MAP
1
2
3
4
5
Previous
Next
ABOUT US
Talk Islam started off with a group of young Muslim brothers from Sydney inspired to spread the dawah on the streets. Whether it be through handing out pamphlets or engaging in conversation with strangers.
THE BASICS OF ISLAM
ONE MESSAGE | ONE GOD
IT’S TIME FOR ISLAM TO DO THE TALKING
January 2, 2014 •Uncategorized
THE PURPOSE OF LIFE
January 2, 2014 • Islam
HOW TO PRAY
January 2, 2014 • Islam
WHAT IS A MUSLIM
October 12, 2011 •Uncategorized
MISCONCEPTIONS
October 12, 2011 •Uncategorized
ISLAM AND THE ENVIRONMENT
October 12, 2011 •Uncategorized
WOMEN IN ISLAM
October 11, 2011 •Uncategorized
JESUS WAS MUSLIM
October 11, 2011 • Islam
WHAT IS THE QURAN
October 11, 2011 • Islam,Uncategorized
WHAT IS ISLAM?
October 11, 2011 • Islam,Uncategorized
WHO IS MUHAMMAD?
October 11, 2011 • Islam,Uncategorized
WHO IS ALLAH?
VIDEOS
ALL
GOD
HIJAB
JESUS
LIFE
MUHAMMAD
SPOKEN WORD
SYRIA
MY HIJAB STORY
Hijab
WHO IS GOD – ALLAH, JESUS OR...
GOD • Spoken word
THE WEAKEST HOME
LIFE • Spoken word
THE MEANING OF LIFE
LIFE • Spoken word
ARE WE HUMAN
Spoken word • SYRIA
MUHAMMAD
MUHAMMAD • Spoken word
WHY I HATE RELIGION, BUT LOVE JESUS...
Jesus • Spoken word
IT’S TIME FOR ISLAM TO DO THE TALKING
CONTACT
Name
Message
Send a copy of this email to yourself
If you want to submit this form, do not enter anything in this field
RECENT POSTS
The Purpose of Life
January 2, 2014 • Comments (0)
How to Pray
January 2, 2014 • Comments (0)
What is a Muslim
January 2, 2014 • Comments (0)
MISCONCEPTIONS
October 12, 2011 • 16 Comments
via Blogger ift.tt/1qMeDcb
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطاب لجنہ اما ء اللہ بر موقع جلسہ سالانہ کینیڈا2016 ۔ ( طالب دعا : یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا :دنیا میں تعلیم میں اضافہ اور میڈیا کی وجہ سے دنیا کو ایک ملک کو دوسرے کے بارہ زیادہ سے زیادہ پتا چل رہا ہے اک ملک کا واقعہ منٹوں میں دوسروں کو پتا چل جاتا ہے ۔ترقی یافتہ ملکوں کے رہن سہن اور ترجیحات کو کم ترقی یافتہ میں رہنے والوں کی اکثریت دیکھ اور سن سکتی ہے ۔جہاں اس کے فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی ہیں ۔کم وسائل والوں میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے ۔مذہب اور اس کی تعلیمات کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے ۔آزادی کے نام پر مذہبی اور اخلاقی زوال کو قانونی تحفظ دیا جانے لگا ہے ۔ایسی باتیں جن کو مذہبی تاریخ نے قوموں کی تباہی کی وجہ بتایا انہیں آزاد اور ترقی یافتہ معاشرہ کا طرہ امتیاز بتایا جاتا ہے ۔بچوں کو ایسی تعلیم دی جاتی ہے جس سے چھوٹی عمر کے بچوں کا کوئی واسطہ اور تعلق ہی نہیں ہے ۔بلکہ بعضوں کو سمجھ ہی نہیں آتی اور بعض بچے اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں ۔فحاشی کو ترقی یافتہ ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔قدم قدم پر شیطان کے اس اعلان کا اظہار نظر آتا ہے ۔جو اس نے خدا کو کہا تو نے آدم کو مجھ پر فوقیت دی ہے اب میں آدم کے ہر راستے پر کھڑا ہو کر تیرے حکموں کے خلاف اس کو ورغلاؤنگا۔ دین سے ہٹاؤنگا ۔اکثریت لوگ میری پیروی کریں گے مرد بھی اور عورت بھی ۔ اللہ تعالیٰ نے جوابا یہی فرمایا ٹھیک ہے تو اپنا کام کر لیکن میں تیرے پیچھے چلنے والوں سے جہنم کو بھرونگا ۔جو تیرے پیرو ہونگے وہ جہنم میں جائیں گے ۔یہ نہیں کہا میں ان کو زبردستی تیری گود میں گرنے سے روکوں گا ۔خدا تعالیٰ کو انسان بھول رہا ہے اور دنیا کی چمک دمک غالب آ رہی ہے ۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب بھی زمانہ میں دنیاوی ہوا و ہوس نے غلبہ پایا تو انسان شیطان کی گود میں بے انتہا گرنا شروع ہوا تو اللہ نے اپنے فرستادے اور انبیاء بھیجے جو انسان کو آگ کے گڑے میں گرنے سے بچانے کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔یہ مذہب کی تاریخ ہے ۔ پس کیا اب اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے اپنے رحمت کے جذبہ کو ختم کر دیا ۔کیا رحم صرف سابقہ قوموں کے لئے تھا ۔ فرمایا : کیا خدا تعالیٰ نے نعوذباللہ شیطان سے ہار مان لی ہے ۔تم جو چاہو کرو ۔انسان پیدا کر دیا اچھے برے کی تمیز بھی دے دی ۔اب میں کچھ نہیں کر سکتا ۔نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نہ پہلے کبھی اپنی صفات اور طاقتوں سے محروم ہوا نہ آئندہ ہو سکتا ہے ۔اس نے انسان کو بیشک آزادی دی ۔لیکن برائیوں سے بچانے کے لئے راہنمائی کرتا رہونگا۔جو برائیوں سے بچیں گے اور نیکیوں کو اختیار کریں گے ان کو جنت کی نعمت سے نوازوں گا ۔ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے ذکر کی وجہ سے اس دنیا میں بھی جنت ہوگی اور آخروی زندگی میں بھی ۔جو اس سے دور جائیں گے وہ جہنم کا ٹھکانہ پائیں گے ۔جب دنیا میں فساد کی حالت دیکھتا ہے ۔تو دنیاوی لوگوں کو بھی فساد میں مبتلا دیکھتا ہے تو پھر رحمت جوش میں آ کر زمین کو موت کے بعد زندگی بخشتا ہے ۔زمین پر بسنے والوں پر پانی اتارتا ہے جو روحانی مردوں کی زندگی کا باعث بنتا ہے ۔تعلیمی ترقی اورنئی ایجادات نے انسانوں کے ذہنوں کو روشن کیا ہے اکثر کو روحانی طور پر مردہ کر دیا یہانتک کے مسلمان بھی روحانی طور پر مردہ ہو چکے ہیں ۔لیکن یہ ہونا تھا ۔کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ہمیں پہلے ہی یہ بتا دیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دے دی تھی کہ اس فساد کے زمانہ میں دنیاوی خواہشات کے بڑھنے کے زمانہ میں آنحضرت ﷺ کا ایک غلام دنیا کی راہنمائی کے لئے آئے گا۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرستادہ اور مسیح موعود اور مہدی موعود کو مان لیا ۔اور اس کی بیعت میں شامل ہو کر یہ اعلان کیا کہ ہم شیطان کے ہر حملہ کو اس پر اللہ تعالی کی مدد سے الٹا دیں گے ۔ فرمایا :اس کے ہر بہکاوے سے بچنے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے دین کو دنیا پر مقدم کریں گے ۔آپ اس بات پر اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر کریں وہ کم ہے ۔ صرف منہ کے اعلان سے شکر گزاری ہی پوری نہیں ہو سکتی ۔اس کے لئے ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔احمدی عورت اور لڑکی کی سب سے بڑھ کر یہ زمہ داری ہے اس نے صرف اپنے آپ کو ہی شیطان سے نہیں بچانا بلکہ اپنی نسلوں کو بھی بچانا ہے ۔عورت کی کوکھ سے بچہ جنم لیتا ہے اس کی گود میں بچہ پلنا ۔ایک حقیقی احمدی عورت اپنے بچہ کو بتاتی ہے کہ اسلام کے اعلی اخلاق کیا ہیں ۔کان میں بچپن سے ڈال سکتی ہے کہ احمدی مسلمان ہونے کا مقصد کیا ہے ۔اس موجودہ معاشرہ میں تربیت کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔بہت بڑا چیلنج ہے اور ذمہ داری ہے ۔آ پ میں سے اکثریت اس وجہ سے یہاں ہیں کہ ان کو اپنے ملکوں میں دین سے محروم کیا گیا یا بعض معاشی بہتری کے لئے آئی ہیں یا دوسرے ظلموں کا نشانہ بنی ہیں ۔جو مذہب کی وجہ سے آئے ہیں ان کے لئے مذہب کبھی ثانوی حیثیت اختیار کر جائے ۔بلکہ وہ بھی جو مذہب کی وجہ سے نہیں آئے وہ بھی نہیں سوچ سکتے کہ مذہب کو پیچھے پھینک دیں ۔گویا کوئی حقیقی احمدی اپنے مذہب کو دوسری چیزوں پر ترجیح نہیں دے گا۔لیکن عملی طور پر جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ باوجود دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کے بڑی تعداد اللہ کے حکموں پر عمل کرنے والی نہیں ۔جب عورت کا نمونہ نہیں تو بچہ بھی وہی نمونہ قائم کریں گیں فرمایا : وہ مائیں جو بچوں کے معاملات میں حکمت سے نظر رکھنے والی ہیں ان کے بچے ہر اچھی بری بات ان کو بتاتے ہیں اور مائیں پھر حکمت سے جوابھی دیتے ہیں ۔ایسی ماؤں کے بچے پھر ماحول کے اثر میں نہیں آتے ۔جوانی میں بھی ماحول کی برائی سے بچنے والے ہوتے ہیں ۔جو مائیں بچوں کے معاملات میں بچپن سے دلچسپی نہیں لیتی وہ بچے پھر اپنی باتیں بتانی بند کر دیتے ہیں پھر باہر کا ماحول ان کو اچھا لگتا ہے ۔دنیا ان کو اچھی لگتی ہے ۔میں باپوں کو اس تربیت سے بری الذمہ نہیں کرتا ۔یقینا باپ بھی ذمہ دار ہیں ۔بعض دفعہ باپوں کے عمل سے بچے بگڑ تے ہیں ۔لیکن زیادہ وقت بچہ ماؤں کے پاس رہتے ہیں اس لئے اسلام ماؤں پر ذمہ داری ڈالتا ہے وہ بچوں کی تربیت کا حق ادا کریں ۔ فرمایا :پس یہ تربیت جو ماں کرتی ہے یہ جہاد سے کم نہیں ہے تبھی تو آنحضرت ﷺ نے ایک عورت کے سوال کرنے پر جہاد پہ جا نہیں سکتی کیا بچوں کی تربیت کرنے پر جہاد جیسا ثواب کمائیں گیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا : یقینا یہ تمہارا جہاد ہے اس کا ثواب تمہیں جہاد جتنا ہے ۔دیکھیں کتنا مقام ہے بچوں کی تربیت کا ۔کس طرح اس عورت کو مقام کا احساس دلایا ہے ۔عورت کی بچوں کی تربیت کر کے قوم کے کردار کو مضبوط کر سکتی ہے ۔جو قوموں بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتی وہ تباہ ہو جاتی ہیں ۔عیسائیت والے بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ پر یقین ختم ہو رہا ہے کیوں ؟ عیسائیت میں وہ باتیں آج ان کو تبدیل کیا جا رہا ہے پادری بھی کہہ دیتے ہیں فلاں فلاں برائی اب کوئی برائی نہیں رہی کیونکہ لوگ اس کو پسند کرتے ہیں ۔ملکی قوانین اللہ تعالیٰ کے قوانین میں تبدیلی پیدا کر رہے ہیں ۔اس لئے لوگ مذہب کی تعلیم کو بھول رہے ہیں ۔ فرمایا : اس لئے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ماؤں نے اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دی ۔ماں بھی اور باپ بھی گھر سے باہر ہے ۔نتیجہ بچے کے لئے گھر میں نہ گھریلو ماحول ہے نہ دینی ماحول ہے ۔مسلمانوں میں بھی بگھاڑ کی ایک وجہ یہی ہے ۔اسلام کو تا قیامت قائم رہنے کے لئے بھیجا تو اس کے لئے سامان بھی کر دیئے کہ اس فساد کے زمانہ میں مسیح موعود کو بھیجا جنہوں نے عورتوں اور مردوں دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ۔اور بتایا کہ اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی بچیوں کی دینی تربیت کرو کہ آئندہ نسل کی مائیں بچوں کے ذہنوں میں دنیا کو دین پر مقدم کریں اور بچوں کی تربیت بھی کرو آئندہ بننے والے باپ دین کو اپنے اوپر لاگو کریں ۔اور بچوں کے لئے بہترین نمونہ بنیں ۔ فرمایا :ہماری نسلوں کی ترجیحات دین ہو ۔آج ہم اپنے آپ کو پڑھا لکھا تو سمجھتے ہیں ۔لیکن ایمان کی وہ حالت نہیں ہے جو ہونی چاہیے ۔عورتوں کی اکثریت بچوں کی دنیاوی تعلیم پر توجہ دیتی ہے لیکن دینی تعلیم کی طرف توجہ نہیں حضرت مصلح موعود ؑ ایک عورت اپنا بچہ لیکر آئی ڈاکٹروں نے اس کو لاعلاج قرار دے دیا ۔عیسائی ہوگیا ۔لیکن جو بات اس نے بڑے اصرار سے کہی وہ یہ تھی کہ آپ اس سے ایک دفعہ کلمہ پڑھا دیں ۔حضور ؑ نے بیماری کی وجہ سے خلیفہ اول ؓ کے پاس بھیجا اور کہا علاج کریں اور تبلیغ بھی کریں ۔لیکن وہ لڑکا بھی بڑا پکا تھا ۔وہ کلمہ پڑھنے سے بچنے کی خاطر رات کو بھاگ گیا ۔رات کو ہی ماں کو بھی پتا چل گیا وہ بٹالہ کے قریب سے پکڑ کر واپس لے آئی ۔آخر خدا نے ماں کی دعا کو سنا اور اس کا بیٹا ایمان لے آیا ۔بعد میں وہ جلد فوت ہو گیا ۔مگر اس ماں نے کہا اب میرے دل کو ٹھنڈ پڑ گئی ۔موت سے پہلے کلمہ تو پڑھ لیا ۔حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں یہ ہوتی ہے صحیح تربیت ۔یہ ہوتی ہے وہ روح جو اسلام عورت میں پھونکنا چاہتا ہے ۔پس اس قسم کی عورتیں جو اپنے بچوں کو نیک اور تربیت یافتہ دیکھنا چاہتی ہیں وہ صرف اپنا فائدہ نہیں کر رہی ہوتیں ۔بلکہ قوم کو اور جماعت کو فائدہ پہنچا رہی ہوتی ہیں ۔بہت سے بچے واقفین نو اب ماؤں کی گودوں میں ہیں ان کی تربیت کا کام کرنا ماں کا کام ہے ۔بعض اپنے کاموں میں لگ گئے اور بعض کہتے ہیں وقف نہیں کرنا چاہتے ۔اگر تربیت ہوتی تو یہ کام نہ ہوتا ۔ فرمایا : دنیاوی سوچ رکھنے والی مائیں تو کہہ سکتی ہیں اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت میں لگی رہیں تو ہم اپنی پڑھائی میں مقام کس طرح ملے گے اسلام کہتا ہے جب تم بچے کی صحیح تربیت کرتی اور تمہارا بچہ جب کوئی مقام حاصل کرتا ہے اور اچھا سائنسدان بنتا ہے ۔اچھا وکیل بن کر دنیا کی خدمت کرتا ہے ۔ڈاکٹر بن کر لیڈر بن کر دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی نیکیوں کے ثواب میں اس کی ماں بھی شامل ہو گی۔ایک مومن ماں اپنے بچے کے لئے اس دنیا میں اور آخروی میں بھی جنت بنا رہی ہوتی ہے ۔جس کو جنت بنانے کا مقام اللہ تعالیٰ نے دے دیا تو اس کے اپنے لئے کتنے بڑے بڑے اجر ہونگے ۔پس یہ سوچ ہونی چاہیے ہماری تعلیم ہمارا علم اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن جائے ۔ پس دنیا دار ماں اور مومن ماں کی سوچ میں بہت فرق ہے ۔ فرمایا : بعض نے اچھے رشتے اس لئے ٹھکرا دیئے کہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں ۔بعض میں نے دیکھیں ڈاکٹر بن کر شادی کی ۔بیشک اعلی تعلیم بڑی اچھی چیز ہے ۔اس سے بھی اعلی بات یہ ہے کہ احمدی بچوں کی دینی لحاظ سے بھی اور دنیاوی لحاظ سے بھی ایک فوج تیار ہو جو اس بگڑے ہوئے زمانہ میں اپنی پہنچان بن جائے ۔ایسی لڑکیاں پیدا کریں ۔جو بہترین ساسیں ۔نندیں بھابیاں ہوں ۔اور لڑکے پیدا کریں جو بہترین سسر پیدا ہوں ۔اگر یہ ہوگا تو کوئی بچی سسرال میں مظلوم نہ ہوگی ۔نہ کسی ساس کو اپنی بہو سے کوئی شکوہ ہوگا ۔یہی وہ حالت ہے جو دنیا کو جنت بنا دیتی ہے ۔بہت سے عائلی جھگڑے اسی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ساسیں ظلم کرتی ہیں بہووں اس خوف سے رعب ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں حالانکہ دونوں کو سمجھنا چاہیے ۔بہت کم مثالیں ہیں یہ اب بڑھ رہی ہیں ۔اچھی مائیں اور اچھی ساسیں اور اچھی بہووں بھی ہیں جو بڑے آرام سے رہ رہی ہیں ساسوں نے بیٹیوں کی طرح رکھا ہوا ہے ۔جو بگھاڑ پیدا کرنے والی ہیں ایسے ایسے سلوک ہوتے ہیں کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے ۔پس اگر جنت بنانی ہے تو ماؤں نے بنانی ہے اور فسادوں کو ختم کرنا ہے تو لڑکی نے ہی کرنا ہے ۔یہی ایک حقیقی مومن سے توقع کی جاتی ہے ۔ فرمایا : دوسری بات جو کہنا چاہتا ہوں ۔اسی کا تسلسل ہے ۔مومن عورتوں اور مومن مردوں کے لئے ارشاد ہے ۔جب ان کو خدا کی باتیں بتائی جاتی ہیں وہ ان پر اندھے ہو کر نہیں گرتے ۔جب بھی وہ حکم خدائی سنتا ہے تو فوری عمل کرتا ہے یہ مومن کا معیار ہے ۔قران کریم میں بعض احکامات خاص طور پر عورت کے حوالہ سے آئیں ہیں َ پردہ ہے یہ کوئی ایسا حکم نہیں جو حضور ؑ نے خلفاء نے جاری فرمایا ۔یہ وہ حکم ہے جو قرآن کریم میں دیا ۔اس کی اہمیت اور حکمت بیان فرمائی ہے ۔اس زمانہ کی حالت کو بھی سامنے رکھتے ہوئے بیان کیا ۔اس لئے لڑکیوں کو توجہ دلائی جاتی ہے تو کہہ دیتی یہ کیا پرانی باتیں ہیں ۔پاکستان سے آئی ہیں ان کے پردے ان کے بچے جڑوا دیتے ہیں مردوں کو اس کا زیادہ احساس کمتری ہے ۔یہاں پولیس لے جائے گی ۔مائیں جو ساری عمر پردہ کرتی ہیں پولیس کے خوف سے پردہ چھوڑ دیتی ہیں ۔اسلام پردہ کے ذریعہ عورت کی عزت قائم کرنا چاہتا ہے ۔مومن مرد کو حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں ۔بعض مردوں کی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ عورت حیا دار ہے پھر بھی آنکھیں پھاڑ کر نہ صحیح کوشش ہوتی ہے کہ نظر پڑ جائے ۔اس لئے کہا اسلام نے کہ بچاؤ ۔پہلے تو مردوں کو ہی حکم دیا ہے ۔عورت کی عزت و عفت کو قائم کرو ۔پھر اگلی آیت میں عورتوں کو کہا ہر قسم کے شر سے بچنے کے لئے تم بھی اپنی آنکھیں نیچی رکھو حیا کو قائم کرو ۔حیا ہر مومن مرد اور عورت کے ایمان کا حصہ ہے ۔پس جس میں حیا نہیں اس میں ایمان بھی نہیں ۔ فرمایا :اپنی زینت کو چھپائیں سوائے اس کے جو خود بخود ظاہر ہوتی ہو ۔قد وغیرہ جسم کا موٹا ہونا شامل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جب فرمایا پردہ کرو تو چادر اوڑھنے کا کہا ۔برقعہ کا رواج بعد میں تیار ہوا ۔اس میں بھی نئی نئی بدعات شامل ہو رہی ہیں بعض ضرورت سے زیادہ کڑہائی والے پہنے جاتے ہیں گویا پردہ جو نظروں سے بچنے کے لئے کہا گیا اس کو توجہ کھینچنے کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے بعض لوگوں کے برقعے اور کوٹ اتنے تنگ ہوتے ہیں کہ زینت کو چھپانے کے لئے جس کا حکم دیا ہے اس کو ظاہر کیا جا رہا ہوتا ہے ۔یہ کوئی پردہ نہیں ۔پھر ایک نیا فیشن شروع ہو گیا تکونے بنائے جاتے ہیں ۔پاکستان بھی بڑا رواج ہو گیا ہے ۔نیچے تنگ جین اور انتہائی اونچی قسم کے شلواریں پہنی جاتی ہیں اور پھر چھوٹی سی قمیض پہنی ہوتی ہے ۔یہ سب پردہ کے حکم کے ساتھ مذاق ہے ۔سکارف ہے ۔نہ بالوں کا پردہ ہوتا ہے نہ چہرہ کا ۔بعض دفعہ یہ اعتراض کرتی ہیں کہ تمہاری احمدی عورتوں کے پردہ صحیح نہیں ہوتے ۔فرمایا : اوڑھنیوں کو اس طرح لو چہرہ نظر نہ آئے ۔ماتھا ڈھا ہو بال نظر نہ آئیں ۔نہ آگے سے نہ پیچھے سے ۔تھوڑی ڈھکی ہو گال ڈھکے ہوں سنگار نہ کیا ہو اگر منہ کھلا رکھنا ہے ۔اس میں ان لوگوں کے اعتراض کا جواب بھی ہے کہ ہم ناک بند کریں تو سانس رکھتا ہے ۔پھر سر پر سکارف لے کر لیکن نیچے چھوٹی قمیض اور جین پہنی ہوتی ہے تنگ سی ۔پھر بعض شلواروں میں اور ٹراوزر میں لمبے لمبے کٹ دے دیئے جاتے ہیں ۔میں نہ بھی دیکھوں تو لوگ شکاتیں کرتے ہیں َان سب لغویات سے احمدی لڑکی کو بچنا چاہیے ۔جین پہننا منع نہیں اس کے ساتھ گھنٹوں تک قمیض ہونی چاہیے ۔ حیا دار لباس کا ضرور حکم ہے ۔حیا جو ہے عورت کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہے ۔ فرمایا : ہمارے فنگشن پر غیر مسلم عورتیں بھی آتی ہیں ۔ان کو بھی بتایا ہے ہمارے فنگشن کا تقدس وہ پورا لباس پہن کر آتی ہیں سکارف بھی اوڑھ کر آتی ہیں ۔اس لئے آتی ہیں ان کو ہمارے ماحول کے تقدس کا خیال ہے ۔پس جب غیر اس قدر لحاظ رکھتے ہیں جن کے لئے حکم نہیں تو پھر ہمیں کس قدر اس بات کا خیال رکھنا ہوگا ۔بعض احمدی لڑکیوں کو احساس کمتری پتا نہیں کیوں ہے اگر انہوں نے پردہ کیا تو لوگ انہیں جاہل سمجھیں گے ۔پس ایسی لڑکیاں دیکھ لیں کہ انہوں نے اللہ کو خوش کرنا ہے یا لوگوں کو ۔اللہ کی بات کو ماننا ہے یا پھر اس کی باتوں پر اندھے اور بہروں کی طرح گزر جانا ہے ۔جیسے سنا ہی نہیں یا دیکھا ہی نہیں ۔احمدی عورت نہیں کہہ سکتی کہ ہم نے سنا نہیں ۔مستقل پوری تعلیم کے بارہ میں سمجھایا جاتا ہے ۔اس طرف لجنہ کی تنظیم کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور خود اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ فیشن بالکل ہی ننگا کر دیں گیں ۔ہمارا دین ایک بہترین دین ہے اور دنیا میں پھیلنے کے لئے ایا ہے اس پر عمل کر کے ہی اس کو پھیلایا جا سکتا ہے ۔ فرمایا : آپ صرف ننگی نہیں ہونگی بلکہ ذمہ داری سے بھی لا پرواہ ہو جائیں گی بچے پھر منفی اثر لیں گی ۔جہاں اعتقادی لحاظ سے ہر لڑکی نے مضبوط کرنا ہے وہاں عملی لحاظ سے بھی مضبوط کریں ۔اس معاشرہ میں اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو حجاب اور پردہ اور حیا کا تصور پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔حیا دار حجاب کی ججک اگر ہے تو بچی میں تو ماں کو دور کرنا چاہیے ۔مائیں اگر 11 یا 12 سال کی عمر تک حیا کا احساس نہیں دلائیں گیں تو بڑے ہو کر کوئی احساس نہیں ہوگا ۔پس اس معاشرہ میں جہاں ہر ننگ اور بیہودہ بات کو سکول میں پڑھایا جاتا ہے پہلے سے بڑھ کر ماؤں کو اپنے بچوں کو اسلام کی تعلیم کو بتانا ہوگا ۔حیا کی اہمیت کا احساس اپنے بچوں میں پیدا کرنا ہوگا ۔ فرمایا :بعض عورتوں کے یا لڑکیوں کے دل میں خیال آئے اسلام کے اور بھی حکم ہیں کیا اسی سے اسلام کی فتح ہونی ہے ۔یاد رکھیں کہ کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں ہوتا ۔اگر کوئی کمزوری زیادہ بڑھنی شروع ہو جائے تو پھر اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے توجہ دلا رہا ہوں ۔دوسروں کا مطمہ نظر کچھ اور ہوگا تو ہوگا ایک احمدی کا مطمع نظر یہی ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھو ۔یہی قرآن نے سیکھایا ہے ۔دنیا کو اپنے پیچھے چلانا ہے ۔پس دنیا کے فیشن کو نہ دیکھیں ۔یہ دیکھیں کہ کیا یہ حدود اللہ میں ہے یا نہیں ۔فیشن کرنا منع نہیں اگر حدود میں ہے تو کریں ۔جس ماحول میں کرنے کا حکم ہے تو کریں ۔مثالیں قائم کریں کہ دنیا پیچھے چلے ۔جہاں احمدی عورت کو اللہ سے تعلق میں بڑھنے کی ضرورت ہے وہاں ہر عمل کو بھی خدا کے حکم کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین bit.ly/2edRTiY