View allAll Photos Tagged Islam'

Quran: " When My servants ask thee concerning Me, I am indeed close (to them): I listen to the prayer of every suppliant when he calleth on Me: Let them also, with a will, Listen to My call, and believe in Me: That they may walk in the right way"

Few pictures from my recent trip to Iran, Pakistan, Afghanistan and Turkey. You can find more (with captions!) at www.expedice.org/luke/silkroad

One beautiful islamic derham I bought yesterday.. It is from the Abbasid period. You can see how amazing and modern arabic calligraphy in Kufi style in both sides.

 

Of course that beauty was built on the legacy of Umayyad coins design, Abbasid have not gave a lot in that topic.

 

Update: it was made in Baghdad, between 775 to 785 AD, Al Khalifa Al Mahdi.

【Isfahan, Iran】 Densely decorated ceiling tiles in the Imam mosque of Isfahan in a masterful representation of the concept of Oneness or Tawhid in Islam, and the fusion of the creation's diversity in its Creator and Sustainer.

  

Check out my albums:

---------------------------------

• All my photos in Explore

Curated stream of my best photos

• My best selling photos

• All my photos used in book covers

 

Follow my photos in Facebook and Instagram

  

©2019 German Vogel - All rights reserved - No usage allowed in any form without the written consent of the photographer.

Detail of painted wall from the Islamic Centre Centre of England, Maida Vale Road, London. This place used to be a cinema and has been decorated quite tastefully in traditional Persian Islamic designs and patterns.

Diego Suaraz, Madagascar

Received the tasbeeh from somebody returning from Hajj. :)

Islamic motifs and geometries form the theme of the Ramadan / Eid decorations at this high-end mall in Kuala Lumpur.

what do muslims believe?

Blue mosk, Leica M9, Summicron 35 asph.

a very cute mosque. the sea breeze was really felt inside the mosque. bessssttt :D

 

maaf shot ini cliche. ;P

 

Shot taken in Fez, Islamic University

"Prayer is the key to heaven, but faith unlocks the door"

  

Kashmir

White Mosque or Big Mosque,

Building's structure is made from honey mixture, cockle, egg and Sand.

Built by Sultan Zainal Abidin II between 1793 and 1808

Kuala Terengganu,Terengganu,Malaysia,

 

Religion in daily life, Istanbul, close to Grand Bazaar.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 01 جنوری 2016 بیت الفتوح یوکے(مرتب کردہ و طالب دعا : یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا :آج نئے سال کا پہلا دن ہے اور جو جمعة المبارک کے برکت دن سے شروع ہو رہا ہے ۔حسب روایت نئے سال کے شروع پر ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں ۔مجھے بھی نئے سال کے پیغام موصول ہو رہے ہیں ۔مغرب یا ترقی یافتہ ممالک میں نئے سال کی ساری رات شراب نوشی ہٹر بازی میں گزاری جاتی ہے ۔بلکہ مسلمان ممالک میں بھی اسی طرح سال نیا منایا جاتا ہے ۔دوبئی میں بھی اسی طرح تماشہ دکھایا گیا ۔63 منزلہ عمارت کو آگ لگی جس سے آگ ڈھیر ہو گئی ۔تباہی ہوتی ہے تو ہوتی رہے ۔ہم تو اس کے قریب اپنے پروگرام کے مطابق تماشے کریں گے ۔ویسے تو اس وقت مسلمان ملکوں کی حالت اکثر کی بری ہے ۔لیکن بہرحال یہ دنیا داری کے اظہار ہیں ۔اگر آگ وہاں نہ بھی لگی ہوتی تو اس حالت کا یہ تقاضہ تھا ۔مسلمان امیر ملک یہ اعلان کرتے ہیں ۔کہ ہم ان چیزوں میں پیشہ برباد کرنے کی بجائے متاثرین کی مدد کریں گے ۔لیکن یہاں تو اپنی تعلیم بھول کر یہ حال ہے کہ کچھ دن پہلے دوبئی سے خبر آرہی تھی کہ ان کا سب سے بڑا ہوٹل جو ہے اس میں دنیا کا مہنگا ترین کرسمس ٹریٹ لگایا گیا جس کی مالیت 11 ملین ڈالر کی تھی ۔یہ مسلمان ممالک کی ترجیحات ہو چکی ہیں َلیکن ۔احمدیوں نے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی رات عبادت میں گزار دی ۔یا صبح جلدی جاگ کر نفل پڑھ کر نئے سال کے پہلے دن کا آغاز کیا ۔بہت جگہ پر تہجد بھی پڑھی گئی ۔اس کے باوجود ہم غیر مسلم ہیں ۔اور یہ ہلڑ بازی کرنے والے مسلمان ہیں َبہرحال ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں ۔ہم کو کسی سند کی خواہش ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں حقیقی مسلمان کی سند لینی ہے ۔اس کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ سال کے پہلے دن انفرادی یا اجتماعی تہجد پڑھ لی ۔یا صدقہ دے دیا ۔اور اس سے خدا کی رضا مل گئی ۔بیشک یہ نیکی اللہ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہو سکتی ہے ۔لیکن تب جب استقلال پیدا ہوگا۔اللہ تعالیٰ کو مستقل نیکیاں اپنے بندوں سے چاہتا ہے ۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : تہجد کے ساتھ ایک پاک انقلاب پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔تب خدا تعالیٰ راضی ہوتا ہے ۔کسی قسم کی ایسی نیکی جو ایک دن یا دو دن کے لئے ہو وہ نیکی نہیں ہوتی ہے ۔کس قسم کے رویہ ہم کو اپنانے چاہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا ملے ۔اس کے لئے میں نے آج زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجے ہوئے کی بعض نصائح کو لیا ہے ۔جو آپ نے اپنی جماعت کو کیں تا کہ مستقل مزاجی اور ایک تسلسل کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرتے رہیں۔یہی باتیں جو سال کے پہلے دن ہی نہیں سال کے بارہ مہینے اور 365 دنوں کو با برکت کریں گی ۔اور ہم اللہ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں : اب دنیا کی حالت کو دیکھو ہمارے نبی کریم ﷺ نے عمل سے دکھایا میرا مرنا اور جینا اللہ کے لئے ہے اور یا اب دنیا میں مسلمان موجود ہیں پوچھنے پر الحمد للہ مسلمان ہونے کا کہتا ہے ۔مگر یہ دنیا کے لئے جیتے ہیں ۔اور دنیا کے لئے مرتا ہے اس وقت تک کہ غرغرہ نہ شروع ہو جائے دنیا ہی مقصود و مطلوب رہتی ہے ۔پھر کیونکر کہہ سکتا ہے نبی کریم ﷺ کی پیروی کرتا ہوں ۔بڑی غور طلب بات ہے ۔مسلمان بننا آسان نہیں ہے ۔رسول کریم ﷺ کی اطاعت اور اسلام کا نمونہ اپنے اندر پیدا نہ کرو تو مطمئن نہ ہو ۔اگر صرف نام کے مسلمان ہو تو رسول کریمﷺ کا اسوہ نہیں اپنانے تو صرف نام اور چھلکا ہی ہے ۔کسی یہودی سے کہا مسلمان ہو جا اس نے کہا تو صرف نام پر ہی خود نہ ہوجا ۔میں نے اپنا نام خالد رکھا تھا ۔اور شام سے پہلے ہی دفن کر دیا ۔اس نام سے اس کو زندگی نہ ملی ۔پس حقیقت کو طلب کرو نرے نام پر راضی نہ ہو ۔کس قدر شرم کی بات ہے انسان عظیم الشان نبی کا امتی ہو کر کافر سی زندگی گزارے ۔تم اپنی زندگی میں محمد ﷺ کا نمونہ دکھاؤ ۔وہی حالت پیدا کرو اور اگر وہ نہیں تو پھر تم شیطان کے ساتھ ہو ۔غرض یہ بات سمجھ آ سکتی ہے اللہ تعالیٰ کا محبوب ہونا زندگی کا مقصد ہونا چاہیے ۔جب تک خدا کی محبت نہ ملے کامیابی کی زندگی بسر نہیں کر سکتے ۔یہ عمل پیدان ہیں ہوتا جب تک سچی اطاعت رسول کریم ﷺ کی نہ کرو ۔آپ ﷺ نے عمل سے اسلام دکھایا وہی اسلام تم بھی اپنے اندر پیدا کرو ۔ اسلام دنیا کی نعمتوں سے منع نہیں کرتا ۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :اسلام نے رہبانیت کو منع کیا ہے مومن کے تعلقات دنیا سے جس قدر وسیع ہوں اتنا بہتر ہے ۔اور دنیا کا ما ل و جا دین کا خادم ہوتا ہے ۔حصول دنیا میں بھی اصل غرض دین ہو ۔ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جائے کہ وہ دین کی خادم ہو ۔انسان جب کسی جگہ پر جانے کے لئے زاد راہ ساتھ لیتا تو اصل غرض منزل ہوتی ہے ۔اسی طرح دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر ۔فرمایا : اے ہمارے رب اس دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی ۔اس میں بھی دنیا کو اول رکھا ایسی دنیا جو آخرت میں بھی حسنات کا موجب بن جائے ۔مومن کو دنیا کے حصول میں آخرت کے حسنات کا خیال رکھنا چاہیے ۔دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کو حاصل کرنے سے بھلائی اور خوبی ہو نا وہ طریق جس سے دوسرے کو تکلیف ہو ۔نہ شرم کا باعث ہو ۔ایسی دنیا ہمیشہ حسنات کی موجب ہوتی ہے ۔ایسی دنیا کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے ۔پھر فرمایا : سمجھنا چاہیے کہ جہنم کیا ہے ۔ایک مرنے کے بعد کا جہنم ہے ۔دوسری یہ زندگی اگر خدا کے لئے نہیں تو یہ بھی جہنم ہی ہے ۔فرمایا : اللہ تعالیٰ ایسے انسان کا تکلیف سے بچانے کے لئے متولی نہیں ہوتا جس کو خدا کی پرواہ نہ ہو ۔کوئی بھی انسان مال و دولت سے دنیا کا بہشت نہیں پا سکتا ۔اطمینان اور تسلی اور تسکین ان باتوں سے نہیں ملتی ۔وہ خدا میں زندہ اور مرنے کے لئے مل سکتی ہے ۔پس یہ بے جا خواہشات کی آگ اسی جہنم کی آگ ہے جو انسان کو اقرار نہیں لینے دیتی ۔بلکہ اس کو پریشان رکھتی ہے ۔فرمایا : اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر پوشیدہ نہ رہے کہ انسان مال و زر کی دولت کے نشہ میں ایسا غرق نہ ہو کہ خدا تعالیٰ اور بندہ میں ایک حجاب پیدا ہو جائے ۔ پھر حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں : میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ الحمد للہ ۔۔۔ مالک یوم الدین سے یہ ثابت ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے اندر لے ۔ہر عالم میں غرض ہر عالم میں پھر رحمان اور رحیم پھر مالک یوم الدین ہے ۔ایاک نعبد کہتا ہے تو پھر اس عبادت میں وہی صفات کا پرتو اپنے اندر لینا چاہیے ۔فرمایا: کمال یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جائے جب تک یہ مرتبہ نہ ملے نہ تھکے نہ ہارے ۔اس کے بعد خود ایک کشش پیدا ہو جاتا ہے جو عبادت کی طرف لے جاتا ہے ۔ اس بارہ میں زندگی کا بھروسہ نہیں حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :کسی کو کیا معلوم ہے کہ ظہر کے بعد عصر تک زندہ رہے ۔بعض دفعہ یک دفعہ ہی جان نکل جاتی ہے ۔بعض دفعہ چنگے بھلے آدمی مر جاتے ہیں ۔ایک وزیر ہوا خوری کر کے آئے ایک دو زینہ چڑھے اور چکر آیا بیٹھ گئے اور پھر دو تین زینہ پر چکر آیا اور جان نکل گئی ۔ایک اور غلام محی الدین یک دفعہ ہی مر گیا ۔موت کا کوئی وقت معلوم نہیں اس لئے اس سے بے فکر نہ ہوں ۔دین کی غم خواری بڑی چیز ہے ۔ساعت سے مراد قیامت بھی ہوگی مگر اس میں ساعت سے موت ہی مراد ہے ۔کیونکہ انقطاع تام کا وقت ہوتا ہے اور ایک عجیب زلزلہ اس پر طاری ہوتا ہے ۔گویا اندر ہی اندر ایک شکنجہ میں ہوتا ہے ۔اس لئے موت کا خیال رکھے ۔ جب یہ یاد ہوگا تو انسان نیکیاں بجا لانے کی کوشش کرتا ہے پھر بلا وجہ کے تماشوں میں نہ وقت اور نہ پیسہ ضائع کرے گا ۔اور نہ بے جا خواہشات کی تکمیل میں پیشہ ضائع کرے گا۔ پھر پاک تبدیلی پیدا کرنے میں فرماتے ہیں : پس غفلت نہ کرو ایک تبدیلی کرو ۔انسان کو نفس جھوٹی تسلی دیتا ہے ۔موت کو قریب سمجھو خدا کا وجود بر حق ہے ۔اب جیساکہ سورة فاتحہ میں تین گروہ کا ذکر ہے ۔تین کا مزہ چکھا دے گا ۔آخر والے مقدم ہونگے ۔ضالین ۔مسلمانوں کی مثال دے کر فرما رہے ہیں ۔کہ وہ پہلے ہو گئے ۔اسلام وہ تھا کہ ایک مرتد ہو جاتا ہے تو قیامت ہو جاتی تھی ۔اب ہزاروں عیسائی ہو چکے تھے ۔خود ناپاک ہوئے ہیں ۔اور پاک وجود کو گالی دی جاتی ہے ۔پھر مغضوب کا نمونہ طاعون سے دکھایا گیا ۔یہ ان لوگوں پر پڑتی ہے ۔آج کے زمانہ میں بھی طوفان زلزلے ہیں اور آفتیں ہیں یہ سب انسان سوچے تو خدا تعالیٰ کے غضب نازل ہو رہے ہیں ۔یہی چیزیں پھر خدا کی طرف لے کر آتی ہیں َپھر انعام یافتہ گروہ ہے ۔قاعدہ کی بات ہے کہ یہ کام نہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو اس میں سے ایک اس کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔کوئی بھی قوم ایسی نہیں جس کو منع کیا گیا اور وہ سب کے سب منع ہوئے ہوں ۔قرآن کی نسبت کہا ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔غرض دعاؤں میں لگے رہو کہ انعام یافتہ گروہ میں داخل کرے ۔مستقل دعاؤں کی ضرورت ہے ایک دو دن کی دعاؤں کی نہیں ۔پھر پاک تبدیلی اور آخرت کی فکر تقوی سے پیدا ہوتی ہے ۔آپ فرماتے ہیں :تقوی والے پر خدا کی تجلی ہوتی ہے وہ خدا کے سایہ میں ہوتا ہے مگر چاہیے کہ تقوی خالص ہو شیطان کا کچھ حصہ نہ ہو ۔شرک خدا کو پسند نہیں ۔اگر کچھ حصہ خدا کا ہو تو خدا کہتا ہے سب شیطان کا ہے ۔خدا کے پیاروں کو دکھ مصلحت الہی سے آتا ہے ۔ورنہ ساری دنیا جمع ہو جائے تو پھر بھی تکلیف نہیں دے سکتی ۔وہ نمونہ ہوتے ہیں اس لئے تکلیف اٹھانے کا نمونہ بھی دکھائیں۔خدا اپنے ولی کو تکلیف نہیں دینا چاہتا ۔یہ ان کے لئے نیکی ہے کیونکہ ان کے اخلاق واضح ہوتے ہیں ۔انبیاء کی تکلیف میں خدا کی ناراضگی نہیں ہوتی بلکہ ایک شجاعت کا نمونہ قائم کرتے ہیں ۔جنگ احد میں رسول کریم ﷺ اکیلے رہ گئے اس میں بھید بھی شجاعت کا ظاہر کرنا تھا ۔جب آپ دس ہزار کے مقابل پر اکیلے کھڑے ہو گئے ۔یہ نمونہ کسی نبی نے نہیں دکھایا۔ ہم اپنی جماعت کو کہتے ہیں کہ اتنے پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہم موٹے موٹے گناہ نہیں کرتے ۔ان میں تو مشرک بھی زنا چوری نہیں کرتے ۔تقوی کا مضمون باریک ہے اس کو حاصل کرو ۔خدا کی عظمت دل میں بیٹھاؤ ۔جس کے اعمال میں ریا کاری ہوگی وہ واپس منہ پر مارے جاتے ہیں ۔متقی ہونا مشکل ہے ۔اگر کوئی تجھ سے کہے تو نے قلم چرایا ہے تو کیوں غصہ کرتا ہے ۔تیرا پرہیز تو محض خدا کے لئے ہے ۔یہ طیش اس واسطہ ہوئے کہ تم اللہ تعالیٰ سے تعلق نہ تھا ۔فرمایا : جب تک واقعی انسان پر بہت سی موتیں نہ آجائیں وہ متقی نہیں بنتا ۔سچی رویا کے پیچھے نہ پڑا کرو بلکہ حصول تقوی کے پیچھے رہو ۔متقی کے الہامات بھی صحیح ہیں ۔اگر تقوی نہیں تو قابل اعتبار نہیں ۔کسی کے الہام کو جاننا ہے تو پھر تقوی سے پہچانو ۔انبیاء کے نمونے کو قائم رکھو ۔جتنے بھی نبی آئے سب نے تقوی کی راہ سکھائی ۔نبی کمال نبی کی امت کے کمال کو چاہتا ہے ۔رسول کریم ﷺ پر کمالات نبوت ختم ہوئے ۔جو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہے وہ اپنی زندگی کو خارق عادت بنا لے ۔تقوی کا اعلی ترین معیار حاصل کرو ۔فرمایا دیکھو امتحان دینے والے محنت کرتے ہیں اور کمزور ہو جاتے ہیں ۔تقوی کے امتحان میں پاس ہونے کے لئے ہر تکلیف اٹھانے کے لئے تیار ہو جاؤ ۔مختصر خلاصہ ہماری تعلیم کا یہی ہے کہ انسان اپنی تمام طاقتوں کو خدا کی طرف لگا دے ۔اہل تقوی اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں ۔کسی کے غصہ سے خود مغلوب نہ ہو جاؤ ۔تکبر اور غرور غضب کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں کسی کو کم سمجھیں خدا جانتا ہے بڑا کون ہے اور جھوٹا کون ہے ۔جس کے اندر حقارت ہے ڈر ہے وہ بیج بڑھ کر ہلاکت کا باعث بن جائے ۔بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو آرام سے سنے ۔اس کی دلجوئی کرے ۔کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے ۔جس سے دکھ پہنچے ۔خدا فرماتا ہے ۔کسی کو برے لقب سے نہ پکارو ۔یہ فعل فجار کا ہے ۔جو کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اس میں مبتلا نہ ہو ۔جب ایک چشمہ سے پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کس کی قسمت میں زیادہ پانی ہے ۔خدا کی نظر میں معزز زیادہ متقی ہے ۔ پھر تقوی کے بارہ میں فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے جس قدر قویٰ عطا فرمائے ہیں وہ ضائع کرنے کے لئے نہیں ان کے جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشو و نما ہے ۔فرمایا اسی لئے قوائے رجولیت نکالنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ جائز استعمال کہا ہے ۔آنکھ بد کام کے لئے نہیں دی گئی بلکہ جائز استعمال کرو گے تو تزکیہ نفس ہوگا۔مسلسل کوشش کرنے والے ہدایت کے راستہ پر چلتے ہیں جس سے فلاح ملتی ہے ۔پس یہی فلاح یاب ہیں جو منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے ۔اس لئے شروع میں ہی تقوی کی تعلیم دے کر ایک کتاب دی جس میں تقوی کی نصائح دیںَ ہماری جماعت غم کل غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے کہ ان میں تقوی ہے یا نہیں۔ اگر تم لوگوں کے دل پر فتح پانا چاہتے ہو تو تقوی سے کام لو ۔دوسروں کو اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ تب کامیاب ہو جاؤ گے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔جو بھی بات دل سے نکلتی ہے وہ دل پر ضرور اثر کرتی ہے ۔مومن کی ایک بات دل سے نکلنی چاہیے اور دوسروں کی فلاح کا موجب بنتی ہے ۔پہلے دل کو عمل والا بناؤ پھر دوسروں کی اصلاح چاہو ۔عمل کے بغیر قولی طاقت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی ۔بہت سے مولوی اپنے آپ کو نائب رسول کہہ کر واعظ کرتے ہیں تکبر غرور سے بچو ان کے اپنے کرتوت ان باتوں سے لگا لو کہ ان کی باتوں کا اثر تمہارے دل پر کس حد تک ہوتا ہے ۔پھر فرمایا : اس قسم کی عملی طاقت نہیں رکھتے ۔اگر یہ خود کرتے تو قرآن کیوں کہتا تم وہ کیوں کہتے ہو جو نہیں کرتے ۔یہ آیت بتاتی ہے کہ عمل نہ کرنے والے ہیں اور ہونگے ۔ہم سب کو پہلے اپنا جائزہ لینا چاہیے اور پھر دوسروں کی اصلاح ۔یہ نصیحت خاص طور پر عہدیداروں کو یاد رکھنی چاہیے ۔دوسروں کو تبدیلی کا کہتے ہیں مگر خود الٹ کرتے ہیں۔پھر خدا تعالیٰ کے حکم کا ثانوی حیثیت دے دیتے ہیں ۔ فرمایا : تم میری بات سنو اور خوب یاد رکھو اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عمل ساتھ نہ ہو وہ اثر انگیز نہیں ہوتی ۔اسی میں ہمارے نبی ﷺ کی کامیابی ہے ۔آپ کو جو فتح ملی اسی وجہ سے کہ آپ ﷺ کا قول وفعل مطابقت رکھتا تھا ۔پھر فرماتے ہیں : آج کل کے تعلیم یافتہ لوگوں پر ایک اور بڑی آفت پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے ۔پھر جب حیرت دان کا یا فلاسفر کا اعتراض پڑھتے ہیں تو شکوک شروع ہو جاتے ہیں ۔تب وہ عیسائی اور دہریہ بن جاتے ہیں ۔ایسی حالت میں ان کے والدین ان پر ظلم کرتے ہیں دین کا علم نہیں دیتے ۔اور شروع سے ایسا کام کرتے ہیں کہ دین نہیں سیکھتے ۔پس والدین کو بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔جماعت میں بہت لٹریچر ہے پڑھیں تو شکوک دور ہو جاتے ہیں َپھر باہم اتفاق و محبت پر کہہ چکا ہوں تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو ۔ تم وجود واحد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گی ۔اگر اختلاف ہو تو پھر بے نصیب رہو گے ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو ۔ایک شخص کی غائبانہ دعا پر فرشتہ بھی کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہو ۔میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو ۔دو ہی مسئلے لیکر آیا ہوں خدا کی توحید پکڑو اور آپس میں محبت کا نمونہ دکھاؤ ۔یاد رکھو جب تک تم میں سے ہر ایک جو خود پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند نہ کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ۔وہ بلا میں ہے پھر فرمایا : میرے وجود سے ایک صالح جماعت پیدا ہوگی ۔ (انشاء اللہ ) جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاتے ان کو جماعت سے الگ کر دونگا ۔جو ایسے ہیں وہ چند روزہ مہمان ہیں ۔میں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا ۔ پس ڈرو میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا۔جو بھی کمزور ہے وہ ان دعاؤں سے حصہ نہ پا سکے گا جو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی جماعت کے لئے کی ہیں ۔پس سب کو اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے ۔پھر فرمایا : قرآن کریم میں ہے کہ تیری پیروی کرنے والوں پر قیامت تک تیرے مخالف پر غلبہ دونگا۔یہ وعدہ مسیح سے تھا میں تم کو کہتا ہوں مجھے بھی انہی الفاظ میں بشارت دی ہے ۔اب سوچ لیں میرے ساتھ رہ کر وہ لوگ اس کو پا سکتے ہیں جو امارہ میں پڑھے ہوئے ہوں ۔نہیں ہر گز نہیں ۔ پس جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ اثر میری ذات تک پہنچتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے نبی تک پہنچتا ہے ۔اگر ان باتوں کا اثر میری ہی ذات تک ہوتا تو مجھے کچھ پرواہ نہ تھی اس کا اثر رسول کریم ﷺ اور پھر خدا تعالیٰ تک جاتا ہے ۔اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو تو پھر اتنا ہی کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہوگی جب تک لوامہ سے گزر کا مطمئنہ تک نہ پہنچ جاؤ ۔پس مامور کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور ان پر عمل کرو ۔اور اقرار کے بعد انکار کرنے والے نہ بنو ۔پھر قبولیت دعا کے بارہ میں فرمایا : قبولیت شرائط کے لئے بھی چند شرائط ہوتی ہیں ۔دعا کروانے والے اور دعا کرنے والے متعلق ہوتی ہیں ۔دعا کروانے والا خدا سے ڈرے اور تقوی پر رہے ۔ایسی صورت میں دعا کے لئے دروازہ قبولیت کھلتا ہے ۔اگر خدا ناراض ہے تو پھر وہ قبولیت نہیں پاتیں۔پس ہمارے دوستو! کے لئے لازم ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو ضائع ہونے سے بچاویں ۔اور ان کی راہ میں روک نہ ڈالیں ۔جو ان کی حرکتوں سے پڑ سکتی ہے ۔چاہیے کہ تقوی حاصل کریں ۔تقوی کے مدارج بہت سے ہیں لیکن صدق نیت سے ابتدائی مدارج کو طے کر یں تو اعلی مدارج کو پا لیتا ہے ۔فرمایا : ہماری جماعت کو لازم ہے جہاں تک ممکن ہو ہر ایک تقوی کی راہ پر قدم مارے تاکہ قبولیت دعا کا مزہ ملے ۔صرف بیعت سے خدا راضی نہیں ہوتا یہ صرف پوست ہے مغز اس کے اندر ہے ۔بعض میں مغز نہیں رہتا تو وہ ردی کی طرح پھینک دئے جاتے ہیں ۔اگر بیعت کرنے والے کے اندر تقوی نہیں تو ڈرنا چاہیے ورنہ وہ ایک دفعہ پھینک دیا جائے گا۔ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان محبت اطاعت مریدی اسلام کا دعوی سچا نہیں ہے ۔یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک مغز کے سوا چھلکا کی کچھ قیمت نہیں ۔صرف دعوی پر کوئی فائدہ نہیں جب تک انسان اپنے آپ پر بہت سی موتیں وارد نہ کرے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے ہم اپنی زندگیوں کو حضرت مسیح موعود ؑ کے مطابق ڈھالنے والے ہوں ہمارے قدم نیکیوں کی طرف بڑھنے والے ہوں آپ ؑ کی دعاؤں کو ضائع کرنے والے نہ ہوں بلکہ دعاؤں کے ہمیشہ وارث بنے اس دعا کے ساتھ آپ سب کو نئے سال کی مبارک باد دیتا ہوں اللہ تعالیٰ اس سال کو ہمارے لئے ذاتی طور پر بھی اور مجموعی طور پر بھی بے شمار برکات کا وارث بنائے ۔ آمین on.fb.me/1moaf0O

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 04 دسمبر 2015 بیت الفتوح یوکے(مرتب کردہ یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق آنحضرت ﷺ کے عاشق و صادق کو بھیج کر اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز فرمایا ْ۔ وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے جنہوں نے 1400 سال بعد وحی و الہام کا زمانہ پایا اور حضرت مسیح موعود ؑ سے فیض پایا ۔جب تصور کی آنکھ سے دیکھیں کہ کس طرح صحابہ حضور ؑ کے گرد ہو کر اس کی حمد اور شکر کرتے ہونگے تو دل کی کیفیت عجیب ہوتی ہے ۔خدا نے وعدہ فرمایا تھا کہ میں آخری میں ایسے لوگ پیدا کرونگا جو پہلوں سے ملنے والے ہونگے ۔وہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ آج کا تازہ الہام کیا ہوا ۔اس کا ذکر حضرت مصلح موعود ؓ نے یوں فرمایا کہ اس طرح عاشقوں کی طرح دن چڑھتے ادھر ادھر دوڑتے تھے ۔ادھر میں نکلا مجھ سے پوچھنے لگے یا کوئی اور بچہ نکلا تو اس سے پوچھنے لگے ۔اور ہماری یہ حالت تھی آپ ؓ فرماتے ہیںٰ کہ ادھر حضرت مسیح موعود ؑ نماز کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے کاپی اٹھا کر دیکھا کہ کیاتازہ الہام ہوا ہے ۔یا پھر مسجد میں جا کر آپ کے منہ سے سنا ۔پس یہ ذوق و شوق تھا اس لئے کہ اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں۔ اللہ کا شکر اور حمد کریں کہ اس نے ہم کو ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی ۔پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ کسی صحابی کی موجودگی میں الہام ہوتا اور وہ خوش قسمت بھی اللہ تعالیٰ کی وحی کو سن رہا ہوتا ۔بعض دفعہ ایسی بھی کیفیت ہوتی ۔ایسے ہی ایک بزرگ کا ذکر کرتے ہوئے جن کی موجودگی میں الہام ہوا ڈاکٹر عنائت اللہ شاہ صاحب کے والد سید فضل شاہ صاحب مکرم صحابی تھے ۔ان میں بھی بڑا اخلاص تھا ۔ان کے بھائی بھی تھے سید ناصر شاہ صاحب یہ اپنے بھائی کو کہتے تھے میں تم کو خرچہ دے دیا کرونگا ۔ایک وحی جو ایسی حالت میں نازل ہوئی جب درد گردہ کی شکایت تھی اور سید فضل شاہ صاحب آپ کو دبا رہے تھے ۔اور اسی طرح وحی نازل ہوئی ۔اور وحی بھی اس طرز کی کہ کلام اونچی آواز میں زبان پر جاری ہو جاتا تھا۔یہ وحی جو مقدمہ دیوار کے بارہ میں تھی اور پھر بعد میں ایسے اسباب بھی پیدا ہو گئے کہ مقدمہ حق میں ہوا ۔اس وحی کے الفاظ آپ ؑ فرماتے ہیں کہ سید فضل شاہ صاحب میرے پیر دبا رہا تھا کہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا اور سید صاحب کو کہا یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت ہے جیسا جیسا یہ ہوتا جائے لکھتے جائیں ایسا ہوتا کہ ایک ایک فقرہ وحی الہی کا زبان پر نازل ہوتا تھا اور جب ایک فقرہ ختم ہو جاتا تو لکھا جاتا تو پھر غنودگی آتی تھی اور پھر دوسرا فقرہ جاری ہوتا یہانتک کہ کل وحی نازل ہو کر سید فضل شاہ صاحب لاہور کی قلم سے لکھی گئی اور تفہیم ہوئی کہ دیوار کے نسبت ہے اور تفہیم ہوئی کہ انجامکار اس میں فتح ہوگی اور میں نے اس کی کثیر جماعت کو سنا دی اور اخبار الحکم میں چھپا دیا ۔سب کو کہہ دیا کہ اگرچہ مقدمہ نو میدی کی ہے مگر پھر بھی اسباب پیدا ہو جائیں گے ۔ وحی کے الفاظ درج ذیل ہیں۔چکی پھرے گی او قضا و قدر نازل ہوگی یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی جیسا کہ چکی گردش کرتی آگے والا حصہ سامنے آجاتا تا ہے ۔یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ۔ وہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں کہ وہ رد کر سکے یہی امر سچ ہے اور یہ پوشیدہ نہ رہےہ گا ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھ کو تعجب میں ڈالے گی یہ میرے رب کی وحی ہے میرا رب اپنے بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں سو تمہیں اس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہوگی مگر اس فیصلہ میں اس وقت تک تاخیر ہے ۔جو مقرر کیا ہوا ہے تو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں پھر اس مخالف کی تکبر ناز چھوڑ دے وہ وعدہ تیرے ساتھ ہے ۔وحی خدا حقیقی معبود ہے ۔انسان کو نہیں چاہیے کہ کسی دوسرے پر توکل کرے ایک خدا ہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے جو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے اور خدا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا جو تقوی اختیار کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں ۔وہ نیکی کے تمام لوازم کو اختیا ر کرتے ہیں اور عمیق در عمیق شاخیں انجام دیتے ہیں ۔ہم نے احمد کو یعنی اس عاجز کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پس قوم اس سے رو گردان ہو گئی اور قوم نے کہا کذاب ہے دنیا کا لالچ ہے دنیا نے عدالت میں گواہیاں دیں وہ ایک تند سیلاب کی طرح جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے گر رہے ہیں وہ کہتا ہے کہ میرا پیارا بہت قریب ہے ۔قریب تو ہے مگر مخالفوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے ۔ حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں : کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی مجالس کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو آپ ؑ کی زبانی سنی ۔ فرماتے ہیں کہ ہم نے مجالس میں اس قدر مسائل سنے ہیں کہ جب کتب کو پڑھیں وہ سنا ہوا لگتا ہے آپ ؑ کی عادت تھی جو کچھ لکھتے وہ شام کو بیان کر دیتے تھے ۔ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو آپ ؑ کی منشاء اور تعلیم کے مطابق ہیں ۔پھر حقیقی ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔کہ ایک ماں کو اس کے بچے کی خدمت کے لئے دلائل دئے جائیں اور کہا جائے خدمت نہ کرو گی تو یہ ہوگا وہ ہوگا مگر یہ ایک منٹ کے لئے بھی اثر نہیں کریں گے ۔وہ خدمت کرتی ہے تو جذبہ محبت کے ماتحت ۔جو اس کے دل میں کام کر رہا ہوتا ہے ۔کامل ایمان والا کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا جو بات بات پر اعتراض کرتے ہیں وہی ٹھوکر کھاتے ہیں ۔پھر مثال دی کہ منشی اوڑورے خان صاحب ان کا ایک لطیفہ یاد ہے ۔وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے بعض لوگوں نے کہا اگر تو مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر سن لو تب تمہیں پتہ لگے کہ مرزا صاحب سچے ہیں کہ نہیں ۔ایک دفعہ سن لی پھر لوگوں نے پوچھا ۔تو میں نے کہا میں نے تو مرزا صاحب کا منہ دیکھا ہوا ہے ۔اس کے بعد دو سال تک بھی مولوی ثناء اللہ تقریر کرتا رہے مگر میں نہیں مان سکتا ۔کیونکہ وہ منہ چھوٹے کا نہیں ہے ۔کامل مومن کا ایمان مشاہدہ کی بنا پر ہوتا ہے ۔ہمیں خدا تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔اور تبھی یقین بھی ہوگا جب اس بات پر قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو اس زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے ۔وقت کا تقاضہ بتا رہی ہے ۔اس بگھڑے ہوئے زمانہ کے بارہ میں پیشگوئی فرمائی تھی ۔پس اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر خوف کردگار بھی ہوتا ہے پھر کثرت اعجاز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔معجزہ نہیں مانگا جاتا ۔پس ہمیں اس کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے ۔خدا کرے کہ اوس کا احساس دوسرے مسلمانوں کو بھی ہو جائے او ر وہ بھی اس امام کو مان لیں ۔حضرت منشی اروڑے ؓ کا نام ایسا تھا جو عجیب سے لگتے ہیں َاس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عام رواج ہے کہ جس کے بچہ فوت ہو جاتے تھے وہ میلے کے ڈھیر پر گھسیٹتے تھے ۔کہ بچ جائے اور پھر اس کا نام اروڑا رکھ دیا جاتا تھا ان کا نام اسی طرح رکھا تھا ۔مگر وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں اروڑا نہ تھا ۔مگر ان کو حضرت مسیح موعود ؑ کے قدموں میں ڈال کر نہ صرف جسمانی موت سے بلکہ روحانی موت سے بھی بچانا چاہتا تھا ۔اور اس نے انہیں ایمان نصیب کیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے مخلص صحابی بنے ۔ایسے اخلاص کے بغیر نجات کی امید رکھنا فضول بات ہے ۔ان کا اخلاص ایسا تھا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔ حضرت مصلح موعود ؓ ان کے بارہ میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ منشی صاحب مرحوم مجسٹریٹ کے ساتھ کام کرتے تھے مہینہ میں آجاتے تھے ایک بار ۔اس لئے جس دن قادیان آنے کا موقع ہوتا ان کا آفسر دفتر والوں کو کہہ دیتا کہ آج جلدی کام ہونا چاہیے کہ انہوں نے آج قادیان جانا ہے اگر نہ جا سکے تو ان کے دل سے آہ نکلے گی وہ مجھ کو تباہ کر دے گی ۔یہ آپ کی قبولیت دعا کا نتیجہ تھا ۔یہ ان بزرگوں کا غیروں پر بھی اثر تھا ۔جنہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کے منہ کو دیکھا ہو ا تھا ۔ حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں : دنیا ایسے لوگوں کو گالیاں دیتی ہے دباتی ہے مگر وہ ہر دفعہ دبانے کے بعد گینڈ کی طرح ابھرتا ہے اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں ایسا ہی ایمان پیدا کرو اور ایسی محبت سلسلہ کے لئے پیدا کرو ۔جو لوگ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں بعض دفعہ وہ ناز کے انداز میں کہتے ہیں کہ نہیں مانگے گے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ ان کی باتیں پوری کرتا ہے ۔ایک بزرگ تھے سخت مصیبت میں تھے کسی نے کہا دعا کیوں نہیں کرتے ۔انہوں نے کہا اگر میرا رب نہیں دینا چاہتا تو کیوں مانگو ۔اور اگر وہ دینا چاہتا ہے تو پھر میرا مانگنا بے صبری ہے ۔یہ مطلب نہیں کہ دعا کرتے ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی ایسی کیفیات آتی ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ مانگے گے نہیں۔یہ مقام یونہی حاصل نہیں ہوتا ۔نمازیں ٹھیک نہ دو صدقہ و خیرت اور جھوٹ سے کام لو پھر بھی خاص بن جاؤ یہ کبھی نہیں ہو سکتا ۔قاضی امیر حسین صاحب مرحوم خالص صحابی تھے ۔وہ بعض باتیں برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔جب حضور باہر آتے تھے لوگ کھڑے ہو جاتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ یہ جائز نہیں کھڑے ہونا یہ شرک ہے ۔آپ ؓ نے فرمایا کہ خلافت کا زمانہ آیا اور وہ مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے میں نے کہا تھا کہ قاضی صاحب یہ تو شرک ہے آپ کے نزدیک ۔کہنے لگے کہ رہا نہیں جاتا بے تاب ہو کر کھڑا ہو جاتا ہوں یہی بات ہے کہ جب بناوٹ سے کیا جائے تو وہ تکلف اور بناوٹ شرک ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کیسے کیسے نشان دکھاتا ہے ۔اس بارہ میں حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ ہارون الرشید کے زمانہ میں ایک بزرگ قید کر دئے گئے کہ ان کی وجہ سے فتنہ پیدا ہو سکتا ہے ۔ایک دفعہ آدھی رات کے وقت ان کے پاس رہائی کا حکم لے کر پہنچا ۔وہ حیران ہوئے کہ یہ حکم کس طرح ہوا انہوں نے بادشاہ سے پوچھا کہ کیوں رہا کر رہے ہو اس نے بتایا کہ میں نے خواب دیکھی کہ مجھے کسی نے جگایا ہے تو پوچھا کون ہے معلوم ہوا کہ محمد ﷺ ہیں میں نے کہا کیا حکم ہے تو انہوں نے فرمایا کیا بات ہے تم آرام سے سو رہے ہو میرا بیٹا قید میں ہے ۔بزرگ نے کہا مجھے بھی بڑا کرب تھا کہ رہائی ہو جائے ۔حضرت مصلح موعود ؓ بعد حوالہ دیتے ہیں ایک عاشق منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کا ۔ان کی عادت تھی کہ ہر جمعہ یا اتوار کو قادیان پہنچ جاتے ۔جب آتے تھے تو سفر کا ایک حصہ پیدل طے کرتے تھے تا کہ رقم بچ جائے اور وہ حضور ؑ کو دے سکیں ۔وہ تنخواہ بہت تھوڑی تھی پندرہ بیس روپیہ تھی ۔آپ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو ہمیشہ ایک ہی کوٹ میں دیکھا ہے دوسرا کوٹ نہیں کبھی دیکھا ۔ان کی بڑی خواہش ہوتی تھی کہ کچھ رقم جمع کر کے نذرانہ عقیدت پیش کر دیں ۔رفتہ رفتہ وہ تحصیلدار بھی ہو گئے ۔پھر مشہور واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد آئے اور بلایا اور بڑی شدت سے رونا شروع کر دیا آپ نے کہا مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا وجہ ہے ۔چار اشرفیاں سونے کی دیں یہ میں حضور ؑ کو دینا چاہتا تھا مگر اب وہ دنیا میں نہیں ہیں ۔آپ ؓ فرماتے ہیں کہ یہ ہوتا ہے عشق ۔اگر دنیا کی یہ نعمتیں ہیں اور ان سے آرام پہنچ سکتا ہے ۔تو ایک مومن کا دل ان کو استعمال کرتے ہوئے ضرور دکھتا ہے اگر یہ نعمتیں ہیں تو ضرور آنحضرت ﷺ کو ملتی ۔حضرت عائشہ ؓ کا واقعہ ۔اسی ضمن میں اپنے عشق کا واقعہ لکھتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ کے بعد آپ کے ضل کو ملتی ۔کہتے ہیں کہ میں چھوٹا ہی تھا کہ شکار کا شو ق پیدا ہوگیا ۔ایک ہوائی بندوق میرے پاس تھی جس سے شکار مار کر گھر لایا کرتا تھا ۔میں نے سنا ہوا تھا کہ شکار کا گوشت دماغی کام کرنے والوں کے لئے مفید ہوتا ہے ۔میں ہمیشہ یہ شکار حضرت مسیح موعود ؑ کو دے دیا کرتا تھا ۔کبھی خود نہیں کھایا تھا ۔جب محبت کامل ہو تو وہ اس کو محبوب کا حق سمجھتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآنی معارف بڑے بڑے مجھ پر کھولے ہیں ۔بیسیوں دفعہ میری زندگی میں یہ آیا کہ جب کوئی معارف کھلا تو میں یہ معارف حضور ؑ کے سامنے یا خلیفہ اول کے سامنے ذکر کرتا ۔اصل مقام حضرت مسیح موعود ؑ کا ہی ہے ۔خلیفہ اول کا خیال اس لئے آیا کہ وہ میرے استاد تھے اور ان کی خواہش تھی کہ میں قران کو پڑھوں اور مطالب نکالوں ۔ یہ تو قصہ تھا حضرت مسیح موعود ؑ کے عاشق کا جو قادیان جاتے تھے اور جانا چاہتے تھے اور خواہش ہوتی تھی کہ وہی بیٹھے رہیں ۔ایک طرف وہ لوگ تھے دوسری طرف بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن پر قادیان کا نیک ماحول مصیبت بن جاتا تھا ۔دنیاوی لذات ان پر اتنی غالب ہوتی تھی کہ وہ نیک ماحول سے جان چڑا کر بھاگتے تھے ۔ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص آیا اور ٹھہر کر چلا گیا ۔جنہوں نے بھیجا تھا انہوں نے خیال کیا کہ قادیان جائے گا اور کچھ دن ٹھہر کر حضرت مسیح موعود ؑ کی باتیں سنے گا اور دیکھے جب ایک دن ٹھہر کر چلا گیا تو بھیجنے والے نے پوچھا اتنی جلدی کیوں آگئے ہو ۔اس نے کہا توبہ کرو جی وہ بھی کوئی ٹھہرنے والی جگہ ہے ۔انہوں نے پوچھا بات کیا ہوئی ہے ۔اس نے کہا صبح کے وقت قادیان گیا مہمان خانہ میں ٹھہرایا گیا ۔اب حقہ پییئے گے ۔ایک شخص نے کہا بڑے مولوی صاحب حدیث کا درس دینے لگے ہیں درس سن لو ۔پھر کھانا کھانے کا کہا ہم نے کھانا کھا لیا پھر حقہ پیئے گے ۔پھر کسی نے کہا ظہر کی اذان ہو چکی ہے ۔تو مرزا صاحب بیٹھ گئے تو باتیں سننے لگے پھر چل کر حقہ پیئے گے ۔پھر پیشاب پاخانہ سے فارغ ہو کر بیٹھے کہ حقہ کے دو کش لگائے تو کسی نے کہا عصر کی اذان ہو گئی ہے نماز پڑھ لو ۔عصر کے بعد اب شام تک حقہ کی آزادی ہوگی ۔اور کسی نے کہا بڑے مولوی صاحب قرآن کا درس ہوگا ۔پھر بڑی مسجد میں گئے بڑی مسجد سے واپس آئے تو مغرب کی اذان ہو گئی ۔پھر ہم مغرب کے لئے چلے گئے اور نماز کے بعد مرزا صاحب بیٹھ گئے پھر وہاں سے آئے کہ پھر حقہ پینے کا موقع ملے ۔پھر کھانا آگیا پھر خیال کیا اب تسلی سے حقہ پیئے گے کہ عشاء کی اذان ہو گئی پھر نماز کے بعد شکر کیا کہ اب تو اور کوئی کام نہیں رہا ۔اب فرصت ہے حقہ پیتے ہیں ۔کہ پتہ لگا کہ باہر سے آنے والوں کو بڑے مولوی صاحب واعظ کرتے ہیں ۔ہم کو وہیں نیند آگئی ۔پھر وہاں سے بھاگا کہ اب شریف آدمی کی جگہ نہیں ہے ۔یہ سب نشہ کرنے والوں کے لئے اس میں ایک سبق ہے ۔ اب میں دنیا کے حالات ہو رہے ہیں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس تباہی کی طرف دنیا تیزی سے جا رہی ہے اس کے لئے احباب جماعت کو بہت زیادہ دعا کرنی چاہیے نام نہاد اسلامی حکومت جو عراق اور شام میں قائم ہے جس کے خلاف اب مغربی حکومت نے فرانس کے واقعہ کے بعد یہ حملے کرنے ہیں تو اگر ان حکومتوں نے کرنے ہیں تو یہ عوام الناس کو محفوظ رکھیں ۔شام والے تو ایک چکی میں پس رہے ہیں ۔نہ ادھر کا راستہ ہے پھر ہمسایہ مسلم ممالک بھی اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں ۔ابھی بھی کہا جاتا ہے کہ بعض اسلامی ممالک اس سے تجارت بھی کر رہے ہیں ۔روس ترکی پر اس کا الزام لگا رہا ہے گو ترکی اس کو رد کرتا ہے ۔بہرحال کچھ نہ کچھ تو ہو رہا ہے اس کے بارہ میں کئی سال سے کہہ رہا ہوں ۔اس میں روس بھی شامل ہے ۔روس مبشر الاسد کی طرف داری کر رہا ہے ۔باقی دنیا اس کےخلاف ہے ۔اس وقت بہرحال داعش کے ٹارگٹ مشترکہ ہیں ۔اس کے باوجود اختلاف ہیں َچین کی حکومت روس کے ساتھ ہے ۔اگر حالات خراب ہوتے ہیں ۔پھر روس کا جہاز ترکی نے گرایا اس کے بعد یہ دشمنوں کے اعلانات بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔اب یہ بھی سنا ہے کہ عراق شام کے علاقہ کو چھوڑنا پڑا تو لیبیا میں اپنے اڈے قائم کریں گے ۔تو پھر ہوائی حملے بعد میں لیبیا پر بعید نہیں کہ وہاں کریں گے ۔مغربی ممالک پہلے انہی حکومتوں کی مدد کرتے رہتے ہیں پھر ان کے خلاف ہو جاتے ہیں ۔لیبیا شام کے خلاف ہو کر ان کی حکومت کو الٹانے کے لئے لگے ہوئے یہ ایک لمبے عرصہ سے انصاف نہ کرنے کی وجہ سے ہے ۔بد قسمتی سے مسلمان حکومتیں بھی لگی ہوئی ہیٍں گویا ایسے حالات ہیں کہ جنگ عظیم شروع ہو چکی ہے ۔اس بات کی طرف میں توجہ دلا رہا ہوں ۔لیکن اب بھی یہی لگ رہا ہے کہ انصاف سے کام لینے کی طرف توجہ نہیں ہے ۔نہ بڑی طاقتوں کو نہ مسلمان حکومتوں کو ۔بظاہر لگتا ہے کہ اس کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں ۔تو امن کے حالات پیدا ہو جائیں گے ۔لیکن بعض حالات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ فتنہ ختم ہو بھی گیا تو حالات نہیں سدھریں گے پھر بڑی طاقتوں کی آپس میں لگ جائے گی رنجش بڑھتی جائے گی ۔پھر جنگ شروع ہو جائے گی ۔عوام ہی مرتے ہیں اس لئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ بھی احتیاطی تدابیر کے لئے جماعت کو توجہ دلائی تھی ۔پھر میں توجہ دلاتا ہوں کہ دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں کہ حکومتوں اور طاقتوں کو عقل دے کہ تباہی کی طرف نہ دنیا کو لے کر جائیں ۔ on.fb.me/1HKKS2T

جامع علي عبدالله السويلم - رحمه الله

 

...

Canon EOS 450D

Tokina 11-16 f/2.8

2.5 sec.

F: 20

ISO: 100

...

Islamic Cairo, Old Cairo, Architecture and Interior Designs

Compared to the Alhambra, the Alcázar of Seville's colorful arabesques and wall details have been preserved, making it a much more colorful experience.

 

Royal Alcázar of Seville - Seville - Spain

Qatar's I. M. Pei designed Museum of Islamic Art glistens in the Doha Bay against a backdrop of the city skyline.

the islamic art and pot painting is very famous in turkish culture

explored

 

old picture ,, taken in al madina

   

-------------------------

any comment with picture will be deleted .

,, أي كومنت فيه صور بمسحه

Picture of a dome at the Ibn Battuta mall, Dubai.

 

A Muslim child looks on as Muslims bow in prayer

ISLAMIC WALLPAPERS MORE FREE WALLPAPERS glaultoa.com/4/6857740

Islamic Cairo, Old Cairo, Architecture and Interior Designs

Pergamon Museum - Berlin

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 11 دسمبر 2015 بیت الفتوح یوکے(مرتب کردہ یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة الحمدللہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : گزشتہ دنوں ایک کالم نے لکھا اور ایک آسٹریلین سیاست دان نے کہا کہ اسلام کی تعلیم کے جہاد کے بارہ میں احکامات ہیں انہی کی وجہ سے مسلمان شدت پسند بنتے ہیں ۔اسلامی احکامات کے بارہ میں یو کے کہ سیاست دان نے بھی یہی کہا تھا ۔اسلام میں کچھ نہ کچھ شدت پسندی کے احکامات ہیں ۔جس کی وجہ سے مسلمانوں کا شدت پسندی کی طرف رحجان ہے ۔آج کل جو اسلام کے نام پر عراق اور شام میں شدت پسند گروہ نے کچھ علاقہ پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کی ہے اس میں مغربی ممالک کو بھی دھمکیاں دیں ہیں بعض جگہ ظالمانہ حملے کر کے معصوموں کو تنگ کیا ہے ۔اس سے جہاں عوام خوفزدہ ہوئی ہے وہاں جو بعض لیڈروں نے لا علمی کی وجہ سے یا اسلام مخالف خیالات کی وجہ سے اسلام کے خلاف کہنے کا موقع مل گیا۔کہنے اور لکھنے والے کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے دوسرے مذاہب میں بھی شدت پسندی ہے لیکن اس کے ماننے والے اب اس پر عمل نہیں کرتے یا زمانہ کی ضرورت کے مطابق تعلیم میں تبدیلی کر لی ہے اور اس بات پر زور ہے کہ قرآن کریم کے احکامات کو بھی اس زمانہ کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔اس سے یہ بات تو ثابت ہوئی گئی کہ ان کی تعلیم اب خدا کی تعلیم نہیں رہی اور یہ ہونا تھا ۔یہ تعلیم قائم رہنے یا تا قیامت عمل کرنے والے کا وعدہ نہیں تھا ۔جب قرآن کریم میں اعلان تھا کہ ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ایک جگہ فرمایا : اللہ تعالیٰ کی قدیم سے عادت ہے جب کسی چیز سے منع کیا جائے تو اس کی تقدیر میں سے ہوتا ہے کہ بعض اس کے مرتکب ہونگے ۔جیسا کہ تورات میں یہودیوں کو منع کیا سو ان میں سے بعض نے تحریف کی ۔اس قرآن کے بارہ میں کہا گیا کہ ہم ہی اس کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے یہ صاف بتا رہی ہے کہ جب ایک قوم پیدا ہو کر اس کو مٹانے والی ہوگی تو پھر ایک فرستادہ کے ذریعہ حفاظت کی جائے گی ۔لوگ وقتا فوقتا اس پر حملے کر کے اس کو مٹانا چاہتے ہیں ۔گزشتہ دنوں ایک چھوٹی سی فلم چل رہی تھی دو لڑکے قران کی بعض آیات پڑھ کر سنا رہے تھے اور مختلف لوگوں سے اس کے بارہ میں پوچھ رہے تھے تو ہر ایک کو جب یہ پتہ چلتا تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم سے ثابت ہو گیا کہ اسلامی تعلیم ہی ایسی ہے جس سے یہ حرکتیں ہوتی تھیں ۔کچھ دیر کے بعد وہ کتاب سے ٹائٹل اٹھا دیا وہ بائبل کی تعلیم تھی کسی نے کوئی بات نہیں تھی ۔جب اسلام کے ساتھ نام آتا ہے تو حملے کرتے ہیں۔اگر ایک مسلمان غلط حرکت کرتا ہے تو وہ اسلام سے جوڑی جاتی ہے اور اگر کوئی دوسرے مذہب والا کرے گا تو وہ معذور پاگل کہلائے گا۔ فرمایا : ہم مانتے ہیں کہ بعض مسلمان گروہوں کے غلط عمل نے اسلام کو بدنام کیا ہے لیکن اس پر قرآن کریم کی تعلیم کو نشانہ بنانا بھی اس کا اظہار ہے امریکہ صدارتی امیدوار اس کے خلاف بول رہا ہے ۔لیکن اسلام کی خوبصورت تعلیم کا مقابلہ کوئی مذہب اور نہ کوئی قانون کر سکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی حفاظت کی وعدہ کے مطابق ایک فرستادہ کو بھیجا اور اس کے مطابق اس نے اس کی حفاظت کی اور اسی نے فرمایا : قرآن کریم جس کا ابتدائی نام ذکر ہے اس نے اس زمانہ کی صداقتوں اور ودیتوں کو یاد کروانے آیا تھا ۔کہ اس زمانہ میں بھی ایک معلم آیا اور جو آخرین منھم لما ہلحقو بھم کا مصداق اور موعود ہے اور وہی تمہارے درمیان بول رہا ہے ۔پھر فرمایا ؛ جو یہ وعدہ ہے کہ حفاظت کا وعدہ کیا ہے ۔مسلمانوں کو اس مصیبت سے بچا لیا اور فتنہ میں پڑنے نہ دیا ۔مبارک ہیں وہ لوگ جو اس جماعت میں شامل ہو کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت کو قائم کرنے کے لئےچودھودیں صدی کے سر پر مجھے بھیجا ۔قرآن کریم کو جو عظمتیں ہیں وہ کسی مذہب کو نصیب نہیں ہیں ۔اس میں مسلمانوں کو بھی دعوت ہے کہ جو حملے ہو رہے ہیں اس کا توڑ کرنے کے لئے اس شخص کے ساتھ رشتہ جوڑ کر مخالفوں کے منہ بند کریں ۔جو گروہ یا لوگ تلوار کے زور سے اسلام کے پھیلانے کا دعوی کرتے ہیں۔حقیقت میں وہ اسلام کے دشمن اور اسلام مخالف طاقتوں کے آلہ کار ہیں ۔حضرت مسیح موعود ؑ نے واضح طور پر فرما دیا یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں ہے ۔اسلام امن اور پیار کی تعلیم سے بھرا ہوا ہے ۔آج اس زمانہ میں اس تعلیم کا پرچار کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو سمجھ کر اس پر ہر احمدی کو عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔آج ہم نے یعنی احمدیوں نے ہی مسلمانوں اور مخالفوں کو حقیقت سے آشکار کرنا ہے ۔جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں وہ جاہل ہیں اسلام کی تعلیم تو امن اور سلامتی کی تعلیم ہے ۔قرآن کریم کی روشنی میں ہی یہ تعلیم ان لوگوں کو دکھانی ہے ۔ فرمایا : اس وقت دنیا کو اسلام کی حقیقی تصویر دکھانا بہت ضروری ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ہر جگہ اس طرف توجہ ہے ۔حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ میڈیا سے تعلق اور رابطہ بھی رکھا جائے اور اس کے ذریعہ سے عوام کو بتایا جائے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ اور باقی ملکوں جرمنی میں بھی میڈیا سے رابطے ہیں ۔ان کو وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے ۔گزشتہ دنوں برٹش پارلیمنٹ میں ایک ممبر نے جماعت احمدیہ کے حوالے سے بتایا کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے احمدی مسلمان ہیں اس پر ان کی بڑی تعریف کی گئی اور وزیر داخلہ نے کہا یہ اسلام جو احمدی پیش کرتے ہیں وہ مختلف ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی نئی تعلیم نہیں ہے بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم پیش کرتے ہیں اس تعلیم کو ہمیشہ تازہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔شدت پسندی کے حوالے سے اخبار میں شرخیا ں دی جاتی ہیں ۔گزشتہ دنوں جب جاپان میں تھا تو وہاں بھی پڑھے لکھے طبقہ کا اظہار تھا بلکہ ایک عیسائی پادری نے کہا اسلام کی تعلیم جو تم بتا رہے ہو اس کو جاپانیوں کو جاننے کی بہت ضرورت ہے ۔لیکن اس کا فائدہ تبھی ہوگا جب آپ اس بات کو اس فینگشن تک محدود نہ کریں بلکہ جاپان میں مسلسل کوشش سے یہ تعلیم دنیا کو بتائیں ۔اب انصاف پسند غیر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے سامنے لگا تار اسلام کی تعلیم پھیلاتے رہو ۔یہ جاپان جماعت کا بھی کام ہے کہ جامع منصوبہ بندی کر کے اس کام کو تازہ رکھیں ۔اسی طرح ہر جگہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا ادراک جو ہوا ہے اس کو پھیلائیں ۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم کے معنوں کی صحیح تشریح کے لئے آپ ؑ کو بھیجا گیا ۔آپ نے اپنی کتب اور ملفوظات میں اس کا بہت وضاحت سے خوب حق ادا کیا ہے ۔ بعض مثالیں پیش کرتا ہوں جو اسلام کی امن کی تعلیم کو واضح کرتی ہیں قرآن کریم میں’’ دین میں کوئی جبر نہیں ‘‘ پھر فرمایا ’’ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو جس قدر لوگ زمین پر تھے سب کے سب ایمان لے آتے جب خدا بھی مجبور نہیں کرتا تو تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ لوگ ایمان لے آئیں ۔آپ ؑ نے فرمایا اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا ۔آنحضرت ﷺ کی خواہش کے باوجود کہا کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔اگر قرآن شریف اور حدیث کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے تو اس قدر وسعت معلومات کے بعد یقین کے ساتھ معلوم ہوگا کہ اسلام تلوار کے ساتھ پھیلا ہے یہ قابل شرم بیان ہے ۔یہ ان لوگوں کا خیال ہے جو تعصب سے الگ ہو کر نہیں دیکھ پاتے ۔مگر میں جانتا ہوں کہ زمانہ قریب ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں پر مطلع ہو جائیں گے ۔کیا وہ جبر کا مذہب کہلا سکتا ہے جس میں لکھا کہ دین میں جبر نہیں ۔کیا اس نبی کو جابر کہا جا سکتا ہے جس نے 13 سال ہر ایک کو جبر کو برداشت کرنے کی تعلیم دی ۔جب حد سے بات بڑی تو پھر تلوار کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی گئی ۔اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو جبر کی تعلیم کی وجہ سے امتحان کے موقع پر سچے ایماندار کی وجہ سے صدق کا نمونہ نہ دکھا پاتے ۔جبر کی وجہ سے دل سے وفا نہیں دکھا سکتے ۔لیکن ہمارے صحابہ ؓ کی وفادار ایک ایسا امر ہے کہ وہ ظاہر باہر ہیں ۔اسلام میں تین قسم کی لڑائیاں ہیں ۔جب سختی کی اجازت ہے۔ ایک دفاعی طور پر اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھایا جا سکتا ۔دوم خون کے عوض خون ۔جب سزا دینا مقصود ہو۔تین : بطور آزادی قائم کرنے کے ۔جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے ۔ان تین مواقع کے سوا کہیں حکم نہیں ہے کہ دین پھیلانے کے لئے تلوار اٹھاؤ ۔ قرآن کریم نے کہا ہے کہ نیک نمونے سے اپنی طرف کھینچو ۔وہ ابتدائی تلوار دشمن کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے کھینچی گئی تھی ۔ فرمایا : قرآن کریم کا جبر سے دین میں داخل نہ کرنے کا اعلان یہ بتاتا ہے کہ جبر سے دین کا کوئی معاملہ نہیں ہے ۔دین کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرو ۔یہ ہر ایک احمدی کی بہت بڑھی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبی کو پیش کرنے کے لئے قرآن کریم کا علم حاصل کر کے دنیا کو اپنے نمونے سے اپنی طرف لائے ۔قرآن کریم میں ایک جگہ اسلام قبول نہ کرنے والوں کا نقشہ یہ ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم تیری پیروی کریں تو ہم کو باہر نکال دیا جائے ۔پس اسلام کی تعلیم پر اعتراض یہ نہیں ہے کہ بلکہ جو قبول کرتا ہے اس کو نکالا جا رہا ہے ۔اور نہ قبول کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اس تعلیم پر عمل کریں تو ارد گرد کے لوگ ہم کوتباہ کر دیں ۔اسلام کی تعلیم تو دوستی کا ہاتھ بڑھانے والی تعلیم ہے ۔امن و محبت کا پیغام دینے والی ہے ۔جو مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے وہ ان کی بد قسمتی ہے ۔اب تو میڈیا پر خود ان کے لوگ کہنے لگ گئے ہیں کہ شدت پسند تنظیمیں ہماری اپنی پیدا کی گئی ہیں ۔اس واسطے میں مسلمانوں اور جو اسلام کے نام پر مسلمان کہلاتے ہوئے شدت پسندی کرتے ہیں وہ بری الذمہ نہیں ۔اس آگ کو بھڑکانے میں بڑی طاقتوں کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ہر تجزیہ نگار کا میڈیا کے ذریعہ ہر جگہ اپنے خیالات پہنچانا اب بہت آسان ہوگیا ہے ۔ایک طرف شدت پسندوں کو ختم کرنے کی باتیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف اسلحہ پہنچانے والوں کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔پس دنیا کے امن کو برباد کرنے والے صرف مسلمان گروہ نہیں ہیں بلکہ بڑی حکومتیں بھی ہین جو اپنے مفادات کو اہمیت دیتی ہیں ۔ایک حقیقی مسلمان تو جانتا ہے کہ خدا سلام ہے ۔ایک جگہ قرآن کریم میں آتا ہے ۔اے اللہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو ان سے در گزر کر اور وہ جلد جان جائیں گے ۔حقیقت کیا ہے ۔یہ ہے اسلام کی تعلیم ۔اسلام مخالفین کی تمام زیادتیوں کو برداشت کر اور کہہ میں سلامتی کا پیغام دیتا ہوں اور دیتا رہونگا ۔پس جب یہ حکم محمد ﷺ کے لئے ہے تو عام مسلمان کے لئے کس قدر بڑھ کر ہوگا ۔ہمارا کام اسلام اور امن کا پیغام پہنچانا ہے ۔قرآن نے کبھی بھی اور کہیں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ جو بات نہ مانے تو اس کو تہہ تیغ کر دو ۔اگر کوئی اس کی نفی کر رہا ہے تو دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ حقیقی اسلام نہیں ہے ۔وہ ان کے اپنے مفادات ہیں یا بڑی طاقتوں کے مفادات ہیں ۔جنہوں نے مسلمانوں کو آلہ کار بنایا ہوا ہے ۔ فرمایا : ہم میں سے ہر ایک کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو احساس کمتری میں شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔اسلام امن کی تعلیم دیتا ہے اس تعلیم کا ادراک اور اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے ۔اس تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں اور اپنے عملی نمونوں سے دنیا کو بتائیں کہ آج قرآن کریم کی صحیح تفسیر اور تشریح ہی اس کی معنوی حفاظت بھی ہے ۔جس کی حفاظت کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ کو بھیجا ہے ۔یہ ہر احمدی مرد و عورت اور لڑکے لڑکی کو کوشش کرنی چاہیے ۔اس وقت جس دھہانے پر کھڑی ہے کسی وقت بھی اس میں گر سکتی ہے ایسے وقت میں دنیا کو اس سے بچانے کے لئے کوشش کرنا احمدی کی ذمہ داری ہے اور احمدی ہی کر سکتا ہے ۔اس کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے بڑی چیز خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنا ہے اور اس کا تقوی اپنے دلوں میں پیدا کرنا ہے اسی وجہ سے ہم دنیا کو امن و سلامتی دے سکتے ہیں ۔ آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار ۔ اس خدا سے تعلق کو مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور دنیاداروں کو بھی عقل دے کہ وہ اس فرستادہ کی بات سن کر تباہی سے بچنے کی کوشش کریں ۔ نماز کے بعد تین جنازے دو غائب اور ایک حاضر ۔ایک عنائت اللہ صاحب کا 9 دسمبر کو وفات ہوئی ۔مبلغ سلسلہ تھے ۔والد اللہ بخش صاحب تھے ۔عنائت اللہ احمدی صاحب کی پیدائش جنوری 1920 کی ہے ۔قادیان مین میٹرک کیا 1944 کو وقف کیا اور 1946 سے 1979 تک مبلغ کے طور پر کام کیا ۔1946 سے 173 تک بیرون مبلغ کام کیا۔ایک بیٹے حبیب اللہ احمدی صاحب بھی وقف کی توفیق پا کر وقف میں ہیں۔شیخ مبارک احمد صاحب کے مدد گاروں میں سے تھے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور نسلوں کو بھی خلافت سے وفا کا تعلق رکھے ۔ دوسرا مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغانا صاحب درویش قادیان کا ہے ۔1946 میں قادیان آیا تو اس وقت احمدیت کی معلومات نہ تھیں ۔نماز کے لئے کوئی مسجد بتاؤ جو قادیانی کی مسجد نہ ہو ۔خوبصورت مسجد ہے اب میں قادیانیوں کی مسجد میں نہیں جاؤنگا۔ایک دن احراریوں کی مسجد میں بھی گیا تو پھر عہد کیا کہ مسجد اقصی میں ہی نماز ادا کرونگا ۔پھر جماعت سے تعارف ہوا اور احمدیت قبول کر لی ۔1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد ارشاد پر حفاظت مرکز کے لئے اپنا نام پیش کر دیا ۔اور درویش میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ۔1952 میں شادی ہوئی دو بیٹے پیدا ہوئے ۔دہاتی مبلغ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی ۔مختلف دفاتر میں بھی کام کیا مینیجر اخبار البدر بھی رہے بڑے وسیع تعلقات تھے ان کے بھی ۔بڑا عزت اور احترام تھا ۔ہمیشہ مسجد میں نماز ادا کرتے تھے وفات والے دن بھی نماز ظہر مسجد میں ادا کی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے او ر ان کی اولاد کو بھی اس کا وارث بنائے ۔ تیسرا مکرمہ قانتہ بیگم صاحبہ ہیں جو اڑیسہ کی ہیں 16 اکتوبر 2015 کو وفات ہوئی بہت صابرہ شاکرہ تھیں ۔ان کے خاوند سرکاری ملازم تھے پھر بھی غریب عزیزوں کی خدمت کیا کرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ مرحومہ کی درجات بلند فرمائے آمین on.fb.me/21UDDfs

many full veiled women...

The Mamluk style developed in Egypt and Syria after 1250, and it survived there long after the fall of the last Mamluk sultan in 1517. Geometric patterns became more complex in Mamluk art, and this wooden panel in the Victoria and Albert Museum in London is a fine example of such art.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خلاصہ خطبہ جمعہ 25مارچ2016 بیت الفتوح یوکے( طالب دعا : یاسر احمد ناصر مربی سلسلہ ) تشہد و سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا : دو دن پہلے 23 مارچ تھی یہ دن جماعت احمدیہ میں بڑا اہم دن ہے اس دن امت محمدیہ سے کیا گیا وعدہ پورا ہوا اور اسلام کی نشاة ثانیہ کے دور کا آغاز ہوا ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعو د ؑ کو اس دن مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کے اعلان کی اجازت دی ۔جنہوں نے جہاں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے براہین اور دلائل پیش کرنے تھے وہاں دین اسلام کی برتری بھی تمام ادیان پر کامل طور پر کرنی تھی ۔آج ہم خوش قسمت لوگ ہیں جو مسیح موعود ؑ کی جماعت میں شامل ہیں اور آج سے دو دن پہلے اس دن کی اہمیت کے مد نظر بہت سے جماعت میں یوم مسیح موعود ؑ کے جلسے بھی ہوئے ۔اس میں جہاں حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت کے مقاصد اور جماعت کے قیام اور اس دن پر روشنی ڈالی گئی وہاں افراد جماعت نے شکر بھی ادا کیا ۔کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسیح موعود ؑ کو ماننے کی توفیق دی ۔اور ان کو ماننا جہاں خوشی کا مقام ہے وہاں ذمہ داریاں بھی بڑھاتا ہے ۔اور ان کی پہچان اور ادائیگی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ؟؟ ہماری ذمہ داریاں ان کاموں کو آگے چلانا ہے جن کاموں کے لئے آپ ؑ مبعوث ہوئے ۔تبھی ہم ان لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کو مان کر نئی زمین اور نیا آسمان بنانے والوں میں شامل ہونا ہے ۔اس کے لئے ہم کو آپ ؑ کی بعثت کے مقاصد کو جاننا ہوگا اور ان کو کس حد تک سمجھا ہے یہ بھی دیکھنا ہوگا اور ان کو آگے کس حد تک پہنچارہے ہیں آپ ؑ نے فرمایا جس کام کے لئے مجھے اللہ نے بھیجا ہے وہ یہ ہے کہ مخلوق اور اللہ کے رشتہ کی کدورت کو دور کر کے محبت اور اخلاص کا تعلق دوبارہ قائم کروں ۔ دوسری بات سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں ۔ تیسری: یہ دینی سچائیاں دنیا کے سامنے ظاہر کروں ۔ چوتھی بات یہ اور روحانیت کو جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤ ۔ پانچویں یہ کہ خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ اور دعا کے ذریعہ نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ نہ صرف قال سے بیان کروں۔ چھٹی یہ کہ سب سے زیادہ یہ کہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر قسم کے شرک سے خالی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں ۔ ساتویں :یہ سب کچھ خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے ۔ یہ سات اہم باتیں ہیں جو اس زمانہ کی ضرورت تھیں ۔جس کا زکر خلاصتہ فرمایا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے ماننے والے ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کر کے اسلام کی خوبصورتی دنیا کو دکھائیں ۔ہمارا پہلا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق مین بڑھیں اور اس کو مضبوط کریں ۔خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اور دین کے تعلق میں اخلاص مین بڑھیں ۔دنیا کوبتائیں کہ مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔اب دنیا کو امت واحدہ بنانے کے لئے اس غلام صادق کو دنیا کے تمام نبیوں کے لباس میں بھیجاہے ۔آپ ؑ کے مشن کے مطابق اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو دکھانی ہے اس کے لئے عملی نمونہ دکھانا ہوگا۔روحانیت میں بڑھنا ہوگا۔نفسانی خواہشات کو دور کرنا ہوگا۔دنیا کو دکھانا ہوگا کہ وہ خدا آج بھی دعاؤں کو سنتا ہے ۔اپنے خالص بندوں کو جواب بھی دیتا ہے جس طرح پہلے بھی دیتا تھا ۔اپنےبندوں کے دلوں کی تسلی کے سامان بھی کرتاہے ۔دنیا کو بتانا ہے خدا واحد ہے ۔ہر چیز ختم ہونے والی ہے صرف اس کی ذات ہمیشہ ہے اور رہے گی ۔ہماری بقا اسی سے جڑنے میں ہے ۔جب 23 مارچ کو یوم مسیح موعود ؑ مناتے ہیں تو ان باتوں کے جائزے بھی لینے چاہیں ۔کیا ہم نے ان باتوں کو پا لیا ۔اس انقلاب کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟ اور بہت سی جگہوں پر حضور ؑ نے بعثت کے مقصد کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ آپ ؑ نے فرمایا : یہ عاجز تو اس وجہ سے بھیجا گیا ہے کہ یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے تمام مذاہب میں سے وہ مذہب حق پر ہے جو قرآن کریم لایا ہے ۔اور نجات کا دروازہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔پھر فرمایا : میرے آنے کی غرض صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے ۔اس سے یہ نہ سمجھو کہ میں کوئی نئی شریعت لے کر آیا ہوں ۔ہرگز نہیں ۔اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہےتو وہ گمراہ اور بے دین ہے ۔ رسول کریم ﷺ پر شریعت کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔اب کوئی شریعت نہیں آسکتی ۔قران کریم خاتم الکتب ہے ۔ہاں رسول کریم ﷺ کی برکات اور فیوض سے اور قرآن کریم کی تعلیم میں ثمرات کا خاتمہ نہیں ہوگیا ۔آپ ؑ نے فرمایا :اس چودویں صدی میں دین کی وہی حالت ہے جو بدر کے وقت تھی ۔میرے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو انبیاء سے ہوا ۔پھر ایک جگہ فرمایا : میرے آنے کے دو مقاصد ہیں ۔مسلمانوں کے لئے یہ کہ اصل تقوی طہارت پر قائم ہو جائیں ۔اور عیسائیوں کے لئے کسر صلیب ہو اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آئے ۔ان مقاصد کی وجہ سے میری مخالفت کیوں کرتے ہیں ۔ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو کام دنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہونگے وہ ہلاک ہو جائیں گے ۔کیا کاذب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے ۔یقینا اللہ تعالیٰ جھوٹے کو کبھی کامیاب نہیں کرتا ۔میں مخالفت کو سلسلہ کی ترقی کے لئے لازمی سمجھتا ہوں ۔یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی مامور آیا اور دنیا نے قبول کر لیا ۔آج 127 سال کے بعد بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات آپ ؑ کے ساتھ ہیں ۔ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے حضور ؑ کے مقاصد کو کامیاب کریں ۔آپ ؑ نے فرمایا آپ‘ کی مدد فرشتوں کے ذریعہ سے بھی ترقی دے سکتا ہے اور دیتا ہے ۔پھر آپ نے فرمایا :خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے کہ میں خزائن مدوفونہ کو دنیا میں پیش کروں ۔اور اعتراضات سے ان خزائن کو پاک کروں ۔اور قرآن شریف کی عزت کو ہر خبیث کے داغ سے پاک کروں ۔ہم مخالفین قلم سے وار کرے اور ہم اس سے لڑیں ۔اب اسلام کا نام لیکر جنگ و جدال کا طریق اختیار کرے تو وہ اسلام کو بدنام کرنے والا ہوگا۔ اسلام کا کبھی منشاء نہ تھا کہ بلا ضرورت تلوار اٹھائی جائے ۔اب دین کی لڑائی دنیاوی ہو گئیں ہیں ۔اب جنگ کا پہلو بدل گیا ہے دل اور دماغ سے کام لیں اور نفوس کا تزکیہ کریں ۔راست بازی سے دنیا سے فتح چاہیں ۔یہ خدا کا مستحکم قانون ہے ۔اللہ تعالیٰ حقیقی تقوی کو چاہتا ہے ۔اسلام کے نام پر جو حملے ہوتے ہیں یہ اسلام کی بدنامی کا ذریعہ ہیں ۔معصوموں کا قتل ناراضگی کا ذریعہ بن رہا ہے گزشتہ دنوں میں جو بلجئیم میں معصوموں کا قتل ہوا ۔یہ کبھی بھی خدا کی رضا حاصل کرنے والے نہیں ہو سکتے اس زمانہ میں دین کے لئے جنگ حرام ہے ۔یہ حرکتیں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بن رہی ہیں۔ آپ ؑ نے فرمایا : اس وقت جو ضرورت ہے وہ سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے ۔ہمارے مخالفین نے جو اسلام پر اعتراضات کئے ہیں ان کا جواب دیں ۔یہ خدا کی بے حد عنایت ہے کہ وہ میرے جیسے انسان کے ہاتھ سے دین کی فتح چاہتا ہے ۔اسلام پر ہمارے مخالفین کی طرف سے اعتراضات کی تعداد تین ہزار تھی ۔اب تو اور بھی بڑھ گئی ہوگی ۔یہ اعتراضات نہیں بلکہ یہ نابینوں کو نہ سمجھ آنے والی باتیں ۔پھر آپ نے فرمایا : یہ فضیلت اسلام کو ہی ہے کہ تائیدی نشان اس کے ساتھ ہیں مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے ۔تائیدی نشان کے ذریعہ اسلام کو غالب کروں مبارک وہ جو میرے پاس آتا ہے اور حق کو قبول کرتا ہے ۔پھر مسلمانوں کے بھی غلط عقیدہ کا رد کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ میں اس غلط عقیدہ کا استحصال کروں ۔ان کا عقیدہ یہ تھا کہ عیسی ؑ قیامت کے قریب آسمان سے نزول کریں گے مگر مجھے بھیج کر یہ اس کو غلط کروں ۔حضرت مسیح ؑ حضرت موسی ؑ کے بعد چودویں صدی میں ائے تھے ۔اب یہ مسیح کو آسمان سے کیوں اتارتے ہیں ۔اب مسیح نے ایلیاء کے اترنے کا ذکر کیا کہ بروزی نزول ہوگا ۔مگر اب یہ مسلمان اس کے بعد بھی اس پر راضی نہیں ہوتے جب تک مسیح کو آسمان سے نہ اتار لیں۔مگر میں کہتا ہوں تم اور تمہارے معاون دعائیں کرو اور ساری عمر ٹکریں مارتے رہو تب بھی عیسی نہیں ائے گا کیونکہ آنے والا تو آ چکا ہے ۔کاش مسلمان اس بات کو سمجھ لیں اور اس کے ساتھ جڑ کر اسلام کی تعلیم کو دنیا میں رائج دیں۔ اور مسلمانوں کے خلاف جو غیر مسلم اور لادین طبقہ جو ہے ان کو اسلام کی حقیقی تعلیم دکھا کر اسلام کی خدمت کرنے والا بننا چاہیے ۔ آپ ؑ اپنی صداقت پر چار نشان بتاتے ہیں ۔اول : عربی دانی کا ۔یہ تب ملا جب بٹالوی صاحب نے کہا مجھے عربی کا ایک صیغہ بھی نہیں آتا ۔مولوی عبد الکریم صاحب شروع سے دیکھتے رہے ہین ۔خدا تعالیٰ خود الفاظ کے القا ء کرتا ہے …نئی اور بناوٹی باتیں بنا لینا آسان ہےمگر ٹھیٹھ زبان بنا لینا مشکل ہے ۔پھر میں نے ان کو شائع کیا اور جس سے چاہو مدد لے لو اور خواہ اہل زبان بھی ملا لو ۔مجھے خدا نے بتایا ہے یہ کامیاب نہیں ہونگے دوسرا: میری دعائیں کثرت سے قبول ہوئی ہیں اور رسول کریم ﷺ کے استثناء سے کہتا ہوں کسی کی دعائیں قبول نہیں ہوئیں جتنی میری ہوئی ہیں ۔دس لاکھ بھی یا کتنی ہوئی ہیں تیسرا نشان : پیشگوئیوں کا ہے ۔بعض باتیں نجومی بھی کہہ دیتا ہے ۔رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں کاہن بھی غیب کی خبریں بتاتے ہیں ان کی باتوں میں اور مامور من اللہ کے اظہار غیب میں فرق ہوتا ہے کہ ملہم کا اظہار غیب الہی طاقت اور ہیبت رکھتا ہے ۔ چوتھا نشان : معارف الہی قران کا ہے ۔یہ کسی پر نہیں کھلتے جس کی تطہیر ہو چکی ہو ۔میں نے کئی بار کہا میرے مخالف ایک سورة کی تفسیر کریں اور میں بھی مگر کسی نے جرات نہ کی ۔ غرض یہ چار نشان ہیں جو مجھے خاص طور پر میری صداقت کے لئے ملے ہیں ،۔حضرت مولوی عبد الکریم لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے لکھا کہ کیا آپ وہی مسیح موعود ہیں جس کی خبر رسول کریم ﷺ نے دی ہے خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر جواب دیں ۔کہتے ہیں اس کا کافی جواب دے دیا مگر وہ مطمئن نہ ہوا ۔پھر لکھا کہ حضرت مرزا صاحب اپنے قلم سے قسم دے کر لکھیں ۔پھر میں نے شام کو دوات قلم اور کاغذ رکھ دیا اور عرض کیا ایسا لکھتا ہے ۔آپ ؑ نے لکھا ۔میں نے پہلے بھی اس اقرار مفصل کو قسم کے ساتھ لوگوں پر ظاہر کیا ہے اور اب بھی اس خدا کی قسم کھا کر لکھتا ہوں کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں وہی مسیح موعود ہوں جس کی خبر احادیث میں دی ہے اور یہی کافی ہے ۔میری طرف سے اللہ ہی نگران ہے ۔17 اگست 1889 کو لکھا ۔پھر آپ ؑ افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں نہیں چاہتا چند الفاط بیعت کے وقت طوطے کی طرح رٹ لئے جائیں ۔بلکہ تزکیہ نفس کا علم حاصل کرو ضرورت اسی کی ہے ۔ہماری غرض یہ نہیں کہ مسیح کی وفات یا حیات پر جھگڑا کرتے پھرو ۔یہ ادنی سی بات ہے ۔اسی پر بس نہیں ۔ہمارا کام اور غرض اس سے بہت بلند ہے اور وہ یہ ہے کہ تم ایک تبدیلی پیدا کرو اور ایک نئے انسان بن جاؤ ۔اس لئے ہر ایک تم میں سے اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے اور کہہ سکتے کہ میں اور ہوں ۔پھر آپ ؑ نے فرمایا : اگر تم ایماندار ہو تو شکر کرو اور شکر کا سجدہ کرو وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے ہوئے تمہارے آباء گزر گئے وہ وقت تم نے پا لیا اب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اور فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح کے لئے بھیجا گیا ۔دنیا کے لوگ جو تاریک خیال ہیں وہ اس کو قبول نہیں کریں گے مگر ان قریب زمانہ آنے والا ہے جو اس کو ظاہر کر دے گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا مگر خدا اس کو قبول کرے گا اور اس کی سچائی زور آور حملوں سے ظاہر کر دےگا۔پس ہم خوش قسمت ہیں جنہوں نے مسیح موعود ؑ کو مانا اور شکر کے سجدات بجا لانے والوں میں شامل ہوئے ۔یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل اور احسان ہے ۔جو اس نے اس زمانہ میں پیدا کیا جو مسیح موعود ؑ کا ظہور ہوا اور اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز ہو ا ۔ فرمایا ؛ میں ایک بات اور بھی کرنا چاہتا ہوں 23 مارچ کے حوالے سے بعض لوگ میسجز کے ذریعہ مبارک باد دے رہے تھے ۔فون پر واٹس اپ پر ۔اگر اس نیت سے مبارکباد دیں تھی کہ ہم نے مانا اور ہم ہدایت یافتہ لوگ ہیں ۔جو دین کے مدد گار ہیں تو یقینا یہ مبارک بادیں دینا ان کا حق تھا ۔اس میں کوئی حرج نہیں ہے کوئی بدعت بھی نہیں ۔مجھے حیرت ہے ان مبارک باد دینے والوں نے ایک خط لکھ کر سختی سے روکا ہے ۔اس طرح بدعات میں پڑ جائیں گے ۔اگر کوئی غلط بات ہوگی تو خلیفہ وقت یا خلافت صحیح ہے اور حقہ ہے تو اسی خود ہی انشاء اللہ تعالیٰ روک لے گی ۔پھر اس طرف بھی دیکھنا چاہیے لوگوں کی نیتوں پر شبہ نہیں کرنا چاہیے ۔کسی نے نیک نیتی سے کی ہو ۔ان کو بھی خلافت کے پیچھے رہ کر بات کرنی چاہیے ۔خلافت کے پیچھے رہیں ورنہ پھسل جائیں گے ۔اپنی انفرادی بات کولوگوں پر نہ لاگو کریں ۔حضرت مسیح موعود ؑ سے کسی نے قضا ئے عمری کے بارہ میں پوچھا تو آپ ؑ نے فرمایا کہ یہ فضول بات ہے ۔فرمایا : ایک شخص بے وقت نماز پڑھ رہا تھا کسی نے حضرت علی ؓ سے کہا اس کو روکتے کیوں نہیں تو انہوں نے فرمایا کہ ڈرتا ہوں اس آیت کے نیچے ملزم نہ بن جاؤں کہ تم بندے کو نماز پڑھنے سے روکتے تھے ۔پھر فرمایا : ہاں عمدا کسی نے ترک کی تو قضائے عمری کے طور پر پڑھ لے تو ناجائز ہے اور اگر ندامت کے لئے پڑھتا ہے تو پڑھنے دو آخر دعا ہی کرتا ہے ۔دیکھو منع کرنے سے تم بھی کہیں اس آیت کے نیچے نہ آجانا ۔پس جن کو فتوی کا حق تھا وہ بہت محتاط تھے ۔لیکن یہ صاحب مبارک باد دینے پر بھی بے انتہاء انذار کی خبریں دے رہے تھے ۔اور فتوے دے رہے ہیں اگر کچھ تھا دل میں مجھے لکھتے تو اگر روکنا تھا تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مسیح موعود ؑ کے بعثت کے مقصد کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین نمازوں کے بعد کچھ جنازے پڑھاؤنگا ۔ ایک جنازہ مکرمہ محمودہ سادی صاحبہ جو 22 مارچ2016 کو 94 کی عمر میں وفات پائی ۔ مرحومہ کا خلافت سے بڑا گہر ا تعلق تھا ۔اور دعا گو صابرہ و شاکرہ تھین ۔بیمار تھیں موصیہ تھیں ۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ۔اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں ہمیشہ وفا اور اخلاص کے ساتھ احمدیت کو قائم رکھے ۔ دوسرا جنازہ نورالدین چراغ صاحب کا یہ چراغ دین صاحب مرحوم قادیان کے بیٹھے دل کا دورہ پڑھنے کی وجہ سے 45 سال کی عمر میں وفات پا گئے ۔ بہن کہتی ہیں ۔بچپن سے غربت دیکھی تھی اس لئے رزق دیا تو لالچ نہ کیا ایک ڈائری ملی جس میں 47 لوگوں کا زکر تھا جن کی کی مالی خدمت کیا کرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر دے ۔ خاص طور پر ان کی والدہ کو سکون دے ۔ آمین ایک جنازہ غائب ۔سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا ہے ۔یہ 20 مارچ کو 83 سال کی عمر میں وفات پا گئی ۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کو وہ مقاصد پورے کرنے کی توفیق دے ۔ آمین bit.ly/1q6rlC7

【Isfahan, Iran】 Islamic arches line up in the Imam mosque of Isfahan

  

Check out my albums:

---------------------------------

• All my photos in Explore

Curated stream of my best photos

• My best selling photos

• All my photos used in book covers

 

Follow my photos in Facebook and Instagram

  

©2019 German Vogel - All rights reserved - No usage allowed in any form without the written consent of the photographer.

Few pictures from my recent trip to Iran, Pakistan, Afghanistan and Turkey. You can find more (with captions!) at www.expedice.org/luke/silkroad

Celebración de Jornadas Islámicas.

Mezquita de Almonaster la Real (Huelva-España).

1 2 4 6 7 ••• 79 80